ہرمسلمان کی خواہش ہے کہ ملک میں اسلامی شریعت کانفاذ ہو لیکن اس کے لیے کیا طریقہ کار اپنانا چاہیے اس میں اختلاف ہے ایک بڑاطبقہ موجودہ جمہوری نظام کے ذریعے نفاذ اسلام کی کوششوں میں مصروف ہے اگرچہ 60 سال سے اس سے خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا تاہم اسلامی انقلاب اور حکومت الہیہ کے نعروں کی حامل جماعتیں آج بھی اسی میدان میں زو رلگا رہی ہیں اس کےبرعکس ایک حلقے کی رائےہے کہ جمہوریت کے ذریعے اسلام نہیں آسکتا زیرنظر کتابچے میں اسی کی ترجمانی کی گئی ہے مروجہ جمہوریت کےحق میں جودلائل دیئے جاتے ہیں ان کابھي اس میں جائزہ لیا گیا ہے نیز بعض جلیل القدر اہل علم مثلاًمحمد قطب اور علامہ البانی وغیرہ کی رائے بھی شامل ہے
جس طرح سوشلزم سرمایہ دارانہ نظام کی دوسری انتہاء ہے بالکل اسی طرح موجودہ جمہوریت شخصی اور استبدادی حکومت کی دوسری انتہاء ہے- اسلام ہر معاملہ میں راہ اعتدال کو ترجیح دیتا ہے اسی لیے اس نے خلافت کا نظام متعارف کروایا ہے جس میں ہر شخص کو اس کا جائز حق عطا کیا جاتاہے- زیر نظر کتاب میں خلافت وجمہوریت اور اس کی ضمنی مباحث کو تحقیقی اور علمی امانت کے ساتھ سپرد قلم کیا گیا ہے- کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے-پہلے حصے میں خلفائے راشدین کا انتخاب کس طرح عمل میں آیا ، پر تفصیلی بحث کی گئی ہےپھر اس کے ضمن میں دیگر مباحث جن میں عورت کے ووٹ کا حق اور طلب امارت یا اس کی آرزو جیسے مسائل پر اپنی قیمتی آراء کا اظہار کیا گیاہے-کتاب کے دوسرے حصے میں دور نبوی اور خلفائے راشدین میں مشہور مجالس مشاورت اور اس کی ضمنی مباحث کو درج کیا گیاہے پھر ان تمام اعتراضات اور اشکالات کا حل پیش کیا گیا ہے جو جمہویت نوازوں کی طرف سے کیے جاتے ہیں-کتاب کے تیسرے اور آخری حصے میں ربط ملت کے تقاضے اور اسلامی نظام کی طرف پیش رفت میں ایک مجمل سا خاکہ پیش کرتے...
خلافت و ملوکیت ابو الاعلیٰ مودودی کی تصنیف ہے جو انہوں نے اکتوبر 1966ءمیں محمود احمد عباسی کی خلافتِ معاویہ و یزید کے جواب میں لکھی تھی۔ کتاب کا موضوع بحث خلافت کا بادشاہت میں تبدیل ہونے کے مراحل کے بارے میں ہے۔مولانا مودودی نے اپنی کتاب میں صحابہ کرام کےبارے میں بہت سی غلط فہمیوں کو پھیلایا اور بالخصوص سیدنا عثمان،سیدنا معاویہ،سیدنا مغیرہ، سیدنا عمروبن العاص اور دیگر بہت سےاصحاب رسول کےکردارکو داغدار کرنے کی مذموم کوشش کی ۔تو کئی سنی علماء نے مولانامودووی کی گمراہ کن کتاب ’’خلافت وملوکیت ‘‘ کے ردّ میں تنقیدی جوابات لکھ کر مودودی صاحب کی کتاب سے جو جو غلط فہمیاں عوام الناس میں پھیل سکتی تھیں، باحوالہ، نہایت مفصل اور مدلل ردّ کیا ۔مولانامودودی کی مذکورہ کتاب پر نقد کرنے میں مفسر قرآن مصنف کتب کثیرہ مولانا حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ کا نام سرفہرست ہے ۔ زیر نظر کتاب’’خلافت وملوکیت کی تاریخی وشرعی حیثیت‘‘ حاف...
ملوکیت یعنی بادشاہت کے معائب و نقائص اور اس کی ہلاکت خیزیوں کو ابھار کر، جمہوریت کا "الحمرا" تعمیر کرنےوالوں میں ایک نام مودودی صاحب کا بھی ہے۔ جسے انہوں نے "خلافت و ملوکیت" نامی کتاب لکھ کر خوب واضح کیا ہے۔ جس میں مودودی صاحب نے پہلے تو تاریخی روایات کے متفرق جزئی واقعات کو چن چن کر جمع کیا ، پھر انہیں مربوط فلسفہ بنا کر پیش کیا، جزئیات سے کلیات کو اخذ کر لیا اور پھر ان پر ایسے جلی اور چبھتے ہوئے عنوانات صحابہ کرام کی طرف منسوب کر کے جما دئے کہ جنہیں آج کی صدی کا فاسق ترین شخص بھی اپنی طرف منسوب کرنا پسند نہ کرے۔ یہ نہ تو دین و ملت کی کوئی خدمت ہے، نہ اسے اسلامی تاریخ کا صحیح مطالعہ کہا جا سکتا ہے۔ البتہ اسے تاریخ سازی کہنا بجا ہوگا۔ یہ بات طے ہے کہ جو حضرات اپنے خیال میں بڑی نیک نیتی، اخلاص اور بقول ان کے وقت کے اہم ترین تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے قبائح صحابہ کو ایک مرتب فلسفہ کی شکل میں پیش کرتے ہیں اور اسے "تحقیق" کا نام دیتے ہیں، انہیں اس کا احساس ہو یا نہ ہو لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس تسویدِ اوراق کا انجام اس کے سوا کچھ نہیں کہ جدید نسل کو دین کے...
مولانا ابو الکلام آزاد جہاں تقریر و خطابت کے میدان میں نمایاں مقام رکھتے ہیں وہیں ایک عالی مرتبت عالم دین کی ہستی بھی ان کے اندر موجود ہے۔ جس کا حقیقی اندازہ مولانا کی زیر نظر کتاب ’مسئلہ خلافت‘ کے مطالعے سے ہوگا۔ خلافت کے موضوع پر متعدد کتب سامنے آ چکی ہیں لیکن مولانا نے اس کتاب میں جس طرح موضوع بحث کو سمیٹا ہے یہ انہی کا خاصہ ہے۔ انہوں نے خلافت سے متعلقہ حارث اشعری کی حدیث کی تشریح کرتے ہوئے امامت و خلافت کی شرائط بیان کی ہیں اور اس پر نصوص سنت اور اجماع اشمت سے دلائل ثبت کئے ہیں۔ حکمران کے خلاف کے خروج کے تناظر میں واقعہ امام حسین پر روشنی ڈالتے ہوئے بحث کو مسلمانان ہند خلافت سلاطین عثمانیہ تک لے آئے ہیں۔ علاوہ ازیں جزیرہ عرب کی تحدید، ترک موالات اور مسلمانان ہند اور نظم جماعت جیسے موضوعات بھی کتاب کی زینت ہیں۔
مذہب سے اظہاربیزاری کرکےاپنی عقل کی بنیادپرجو سیاسی نظام انسان نے وضع کیاہےاس دورجدیدمیں اسے جمہوریت کہتےہیں ۔ جمہوریت کو اساس اہل یورپ نےفراہم کی ۔پھربعد میں مسلمانوں نے اسےاپنایا۔مسلمانوں جب اسے اپنایاتو اس میں بنیادی طور پر تین طرح کی آراتھیں ۔پہلی یہ کہ اسے مکمل رد کردیاجائےدوسری یہ تھی کہ اسےمکمل قبول کرلیاجائے جبکہ بعض کےہاں اسے قبول توکیا جائے لیکن ترمیم و اضافےکےساتھ ۔زیرنظرکتاب اولیں نقطہ کی حامل ہے جس میں مصنف نے عقلی ،فطری ،اخلاقی اور شرعی بنیادوں پر اس کاکھوکلا پن ثابت کرکےدکھادیاہے۔موصوف کاکہناہےکہ گزشتہ دوصدیوں سے دنیاجمہوریت کاتجربہ کررہی ہے ۔جس میں اسے مسلسل ناکامی کا سامناکرناپڑرہاہے۔اور آئندہ بھی اس کی کامیابی کوئی امکانات نظر نہیں آرہےسو بہتر یہی ہےکہ اسلام کا دیاہوانظام خلافت جوکہ ایک فطر ی نظام ہےمسلمانوں کو چاہیےکہ اسے اپنائیں۔کیونکہ اس میں ہی ان کی کامیابی کاراز ہے۔اس کےعلاوہ یہ ہےکہ دنیاکی دیگر اقوام کو اگرظاہر ی طورپر کچھ کامیابی مل بھی جاتی ہےاس سے یہ دوکھانہیں کھاناچاہیےکہ مسلمانوں کو بھی اس سے کامیابی ممکن ہوکیونکہ اس امت کی اساس ہی دیگرہے۔(ع۔ح)