اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہونے کے ساتھ ساتھ دینِ فطرت بھی ہے جو اُن تمام اَحوال و تغیرات پر نظر رکھتا ہے جن کا تعلق اِنسان اور کائنات کے باطنی اور خارجی وُجود کے ظہور سے ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اِسلام نے یونانی فلسفے کے گرداب میں بھٹکنے والی اِنسانیت کو نورِ علم سے منوّر کرتے ہوئے جدید سائنس کی بنیادیں فراہم کیں۔ قرآنِ مجید کا بنیادی موضوع ’’اِنسان‘‘ ہے، جسے سینکڑوں بار اِس اَمر کی دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش وُقوع پذیر ہونے والے حالات و واقعات اور حوادثِ عالم سے باخبر رہنے کے لئے غور و فکر اور تدبر و تفکر سے کام لے اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ شعور اور قوتِ مُشاہدہ کو بروئے کار لائے تاکہ کائنات کے مخفی و سربستہ راز اُس پر آشکار ہوسکیں۔ زیر تبصرہ کتاب’’ اسلام اور جدید سائنس‘‘مولانا شہاب الدین ندوی کی ہے۔ جنہوں نے جديد علم کلام پر کئى اہم اور معرکہ آراء کتابيں تصنيف کيں۔مولانا محمد شہاب الدين ندوى (1932-2002) کى ولادت بروز جمعرات يکم رجب المرجب 1350ھ مطابق 12 /نومبر 1931ء کو جنوبى ہند کے شہر بنگلور...
محترم ڈاکٹر ذاکر نائیک ﷾ہندوستان کے ایک معروف مبلغ اور داعی ہیں۔آپ اپنے خطبات اور لیکچرز میں اسلام اور سائنس کے حوالے سے بہت زیادہ گفتگو کرتے ہیں ،اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے جو کچھ بتا دیا تھا ،آج کی جدید سائنس اس کی تائید کرتی نظر آتی ہے۔اور یہ کام وہ زیادہ تر غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دیتے وقت کرتے ہیں ،تاکہ ان کی عقل اسلام کی حقانیت اور عالمگیریت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔اسلام اگرچہ سائنس کی تائید کا محتاج نہیں ہے ،اور اس کا پیغام امن وسلامتی اتنا معروف اور عالمگیر ہے کہ اسے مسلم ہو یا غیر مسلم دنیا کا ہر آدمی تسلیم کرتا ہے۔لیکن میرے خیال میں سائنس سے اسلام کی تائید میں غیر مسلموں کو کوئی عقلی دلیل پیش کرنے میں کوئی برائی والی بات بھی نہیں ہے۔لیکن بعض احباب ان کے اس طرز عمل سے نالاں ہیں ۔ان کے نزدیک اسلام کے پیغام میں اتنی زیادہ قوت موجود ہے کہ ہمیں سائنس کی تائید وغیرہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔زیر تبصرہ کتاب " اسلام اور جدید سائنس&...
آج کے مغرب زدہ معاشرے میں اسلام کو ضابطہ حیات کی بجائے چند عبادات اور رسم ورواج کا دین سمجھ لیا گیا ہے اور باور بھی یہی کروایا جاتا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اور جدید میڈیکل سائنس کے متعلق اسلام خاموش ہے۔اس کا مکمل کریڈٹ یورپ کو دیا جاتا ہے ۔حالانکہ یہ ظلم ہے ۔تعصب کی عینک اتار کر اگر اسلام کا مطالعہ کیا جائے توآپ کو اس میں دین ودنیا کے ہر شعبہ کے متعلق مکمل راہنمائی ملے گی۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے۔اسلام نے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں راہنمائی فراہم کی ہے۔عبادات ہوں یا معاملات،تجارت ہو یا سیاست،عدالت ہو یا قیادت ، طب ہو یا انجینئرنگ ،اسلام نے ان تمام امور کے بارے میں مکمل تعلیمات فراہم کی ہیں۔اسلام کی یہی عالمگیریت اور روشن تعلیمات ہیں کہ جن کے سبب اسلام دنیا میں اس تیزی سے پھیلا کہ دنیا کی دوسرا کوئی بھی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔اسلامی تعلیمات نہ صرف آخرت کی میں چین وسکون کی راہیں کھولتی ہیں ،بلکہ اس دنیوی زندگی میں اطمینان ،سکون اور ترقی کی ضامن ہیں۔اسلام کی اس بے پناہ مقبولیت کا ایک سبب مساوات ہے ،جس سے صدیوں سے درماندہ...
سائنس کو مذہب کا حریف سمجھا جاتا ہے،لیکن یہ ایک غلط فہمی ہے۔دونوں کا دائرہ کار بالکل مختلف ہے ،مذہب کا مقصد شرف انسانیت کا اثبات اور تحفظ ہے۔وہ انسان کامل کا نمونہ پیش کرتا ہے،سائنس کے دائرہ کار میں یہ باتیں نہیں ہیں،نہ ہی کوئی بڑے سے بڑا سائنس دان انسان کامل کہلانے کا مستحق ہے۔اسی لئے مذہب اور سائنس کا تصادم محض خیالی ہے۔مذہب کی بنیاد عقل وخرد،منطق وفلسفہ اور شہود پر نہیں ہوتی بلکہ ایمان بالغیب پر زیادہ ہوتی ہے۔اسلام نے علم کو کسی خاص گوشے میں محدود نہیں رکھا بلکہ تمام علوم کو سمیٹ کر یک قالب کر دیا ہےاور قرآن مجید میں قیامت تک منصہ شہود پر آنے والے تمام علوم کی بنیاد ڈالی ہے۔چنانچہ مسلمانوں نے تفکر فی الکائنات اور حکمت تکوین میں تامل وتدبر سے کام لیا اور متعددسائنسی اکتشافات سامنے لائے ۔تاریخ میں ایسے بے شمار مسلمان سائنسدانوں کے نام ملتے ہیں،جنہوں نے بے شمار نئی نئی چیزیں ایجاد کیں اور دنیا میں مسلمانوں اور اسلام کا نام روشن کیا۔ زیر تبصرہ کتاب" اسلام اور سائنس " علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے استاد محترم ایس...
اسلامی علوم بالخصوص قرآن و سنت کے حوالے سے تحقیق، تفسیر، تشریح ،تسہیل اورتفہیم کا کام صدیوں پر محیط ایک مستحکم اور درخشندہ تاریخ کا حامل ہے۔ ہر عہد کا اپنا ایک محاورہ اور معیار ہوتا ہے جس کے مطابق نظریات کی تفہیم و تجزیہ کیا جاتا ہے،یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے آغاز سے ہی ’’سائنس‘‘ اپنے عہد کا محاورہ قرار پائی تھی اور گزرنے والے مہ و سال اس کے محکم ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر رہے تھے،ایسے میں درپیش صورت حال کا مسکت جواب دینے کی ضرورت محسوس کی گئی۔’’موجودہ دورمیں اسلام کے علم الکلام کی بنیاد بھی جدید تجرباتی علوم کی دریافتوں پر استوار ہونی چاہیے، اس لیے کہ ان کے نتائج قرآنی افشائے حقیقت سے ہم آہنگ ہیں،چناں چہ دین کا سائنٹیفک علم موجودہ دور کے مسلمانوں کے اعتقاد کو پختہ اور راسخ بنا دے گا۔‘‘ زیر تبصرہ کتاب’’ اسلام سائنس اور مسلمان‘‘ابو علی عبد الوکیل کی ہے۔ عصر جدید میں قرآن حکیم کی اعجازی رہنمائی کا ایک اچھوتا اور لازوال مرقع ہے۔مزید اس کتاب میں خلافت ارض کے لئے سائنس اور ٹکنالوجی کی اہمیت ،ا...
اسلام اور سائنس کے موضوع پر مختلف بیانیے اس وقت موجود ہیں ان میں ایک بیانیہ حسن عسکری صاحب کا ہے ۔حسن عسکری صاحب کے بیانیے نے انصاری مکتب فکر سے وابستہ بہت سے اہل فکر ودانش کو متاثر کیا ہے۔ ان حضرات کی تحریریں ماہنامہ’’الساحل‘‘ کراچی میں پبلش ہوتی رہی ہیں۔ خالد جامعی صاحب نے خاص طور اس موضوع پر کافی کچھ لکھا ہے اور لکھتے رہتے ہیں۔معروف مذہبی سکالر ڈاکٹر حافظ محمد زبیر ﷾(مصنف کتب کثیرہ،اسسٹنٹ پروفیسر کامساٹس یونیورسٹی،لاہور) نے زیر نظر کتابچہ بعنوان’’ اسلامائزیشن آف سائنس‘‘ میں اس موضوع کے متعلق چند ایک معروف بیانیوں کو موضوع بحث بنایا ہے۔ اس کتابچے میں سب سے زیادہ زیر بحث حسن عسکری صاحب کا بیانیہ رہا ہے۔ڈاکٹرحافظ زبیر صاحب کو حسن عسکری صاحب اور ان کے متبعین کے نقطہ نظر سے بالکل بھی اتفاق نہیں ہے لیکن ڈاکٹر زبیر صاحب کے نزدیک ان کی تحریریں اس اعتبار سے قابل ستائش ہیں کہ کسی نے اس موضوع پر کھل کر اظہار خیال تو کیا ہے اور ایک بیان...
جس طرح انسان مٹی اور روح کا حسین امتزاج ہے، اسی طرح انسان کو اللہ تعالی نے ذہن اور دل عطا کئے ہیں۔جس طرح اس دنیا کی زندگی روح اور جسم کے درمیان ایک داستان ہے، بالکل اسی طرح اس حیات دنیاوی میں انسان کے دل اور دماغ میں ایک کشمکش رہتی ہے۔اگر اکثر مواقع پر دماغ اپنی من مانی کرتا ہے تو دل بھی کئی مواقع پر دماغ پر فتح حاصل کر لیتا ہے اور انسان سے وہ کرواتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔قرآن وحدیث میں انسانی دل کو ذہانت کا منبع اور جذبات واحساسات رکھنے والا عضو قرار دیا گیا ہے۔تاہم بیسویں صدی کے وسط میں سائنس نے پہلی مرتبہ یہ حیرت انگیز دریافت کی کہ انسانی دل میں بھی انسانی دماغ کی طرح ذہانت کے خلئے پائے جاتے ہیں۔اس انقلابی دریافت کے بعد پھر انسانی دل پر بحیثیت منبع ذہانت کے مغرب میں کئی سائنسی تحقیقات ہوئیں۔ زیر تبصرہ کتاب " انسانی دل اور قبول اسلام، ایک مذہبی، سائنسی تجزیہ "محترم ڈاکٹر گوہر مشتاق صاحب،پی ایچ ڈی امریکہ کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے یہی واضح کیا ہے کہ جو چیز اسلام نے آج سے 1400 سو سال پہلے بتا دی تھی ، سائنس آج انہیں دریافت کر رہی ہے، جو اسلام...
کائنات میں زمین کے محل وقوع کی معلومات 400 برس کے دور بینی مشاہدات کا نچوڑ ہے، شروع میں زمین کو کائنات کا مرکزسمجھا جاتا تھا، اور کائنات صرف ان سیاروں پر مشتمل تھی جو ننگی آنکھ سے دیکھے جاسکتے تھے اور ان کے کنارے پر مستقل ستاروں کا کرہ تھا۔ سترہویں صدی میں شمس مرکزی نمونے کو تسلیم کئے جانے کے بعد ولیم ہرشل اور دوسروں کے مشاہدے سے معلوم ہوا کہ سورج وسیع ستاروں کی قرص نما شکل میں موجود ہے۔بیسویں صدی تک ایڈون ہبل کے مرغولہ نما سحابیہ کے مشاہدے سے معلوم ہوا کہ ہماری کہکشاں پھیلتی ہوئی کائنات میں موجود ارب ہا ارب کہکشاؤں میں سے ایک ہے بیسویں صدی کے اختتام تک، کائنات کی کل ساخت خاصی واضح ہو گئی تھی، جہاں فوق جھرمٹ اور خالی جگہیں ریشوں اور خالی جگہوں سے وسیع جال بن رہے تھے۔فوق جھرمٹ اور خالی جگہیں کائنات میں آپس میں بندھی ہوئی سب سے بڑی ساختیں ہیں جن کا ہم مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ چونکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ کائنات کا کوئی مرکز یا سرحد نہیں ہے، لہٰذا کوئی بھی مخصوص نقطہ ایسا نہیں ہوگا جس کی نسبت سے ہم کائنات میں زمین کے محل وقوع کو بیان کرسکیں۔ تاہم کیونکہ قابل مشاہدہ کا...
انسان نے اپنے صدیوں کے روزمرہ مشاہدات سے اور تجربات سے مندرجہ ذیل اصول اخذ کئے تھے۔کہ یہ کائنات سمجھ میں آ سکتی ہے کیونکہ اس کے کچھ قوانین ہیں جو ہر جگہ یکساں طور پر نافذ ہیں۔ ان قوانیں کو جان کر فطری قوتوں کو قابو کیا جا سکتا ہے۔ان قوتوں سے حسبِ منشاء ضرورت کا کام لیا جا سکتا ہے۔آج ہم اِن اصولوں کے ذریعے حاصل کردہ علم کو سائنس کا نام دیتے ہیں۔انسان نے جو سب سے پہلی سائنسی دریا فت کی تھی، وہ تھی " آگ" انسان نے دیکھا کہ آگ روشن ہے، جلا دیتی ہے، پکا دیتی ہے، جانوروں کو بھگا دیتی ہے، یہ توانائی ہے، اسے قابو کیا جا سکتا ہے ، اس سے کام لئے جا سکتے ہیں یہ سائنسی تجربات تھے۔ یہ اُس کی سائنس تھی۔ انسان کائنات کو صرف سمجھتا ہی نہیں تھا وہ تخلیق اور ایجاد کا ذہن بھی رکھتا تھا۔ فطری قوتوں کا حسبِ منشا استعمال کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس نے قوانین قدرت کو نئے رخ سے استعمال کرنا شروع کیا۔اپنے اختیارات سے استعمال کرنا شروع کیا۔ یہ استعمال ٹیکنالوجی کہلایا۔انسان نے جو سب سے پہلے ایجاد کی وہ پہیہ تھی ۔ اس نے دیکھا کہ گول چیز دیگر شکلوں والی اشیاء کی نسبت باآسانی ح...
تزکیۂ نفس ایک قرآنی اصطلاح ہے ۔اسلامی شریعت کی اصطلاح میں تزکیہ کا مطلب ہے اپنے نفس کوان ممنوع معیوب اور مکروہ امور سے پاک صاف رکھنا جنہیں قرآن وسنت میں ممنوع معیوب اورمکروہ کہا گیا ہے۔گویا نفس کو گناہ اور عیب دارکاموں کی آلودگی سے پاک صاف کرلینا اور اسے قرآن وسنت کی روشنی میں محمود ومحبوب اور خوب صورت خیالات وامور سے آراستہ رکھنا ہے۔اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو جن اہم امور کےلیے بھیجا ان میں سے ایک تزکیہ نفس بھی ہے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے : هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ‘‘اس آیت سے معلوم ہوتاہےکہ رسول اکرم ﷺ پر نوع انسانی کی اصلاح کےحوالے جو اہم ذمہ داری ڈالی گئی اس کےچار پہلو ہیں ۔تلاوت آیات،تعلیم کتاب،تعلیم حکمت،تزکیہ انسانی۔ قرآن مجید میں یہی مضمون چار مختلف مقامات پر آیا ہے جن میں ترتیب مختلف ہے لیکن...
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہونے کے ساتھ ساتھ دینِ فطرت بھی ہے جو اُن تمام اَحوال و تغیرات پر نظر رکھتا ہے جن کا تعلق اِنسان اور کائنات کے باطنی اور خارجی وُجود کے ظہور سے ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اِسلام نے یونانی فلسفے کے گرداب میں بھٹکنے والی اِنسانیت کو نورِ علم سے منوّر کرتے ہوئے جدید سائنس کی بنیادیں فراہم کیں۔ قرآنِ مجید کا بنیادی موضوع ’’اِنسان‘‘ ہے، جسے سینکڑوں بار اِس اَمر کی دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش وُقوع پذیر ہونے والے حالات و واقعات اور حوادثِ عالم سے باخبر رہنے کے لئے غور و فکر اور تدبر و تفکر سے کام لے اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ شعور اور قوتِ مُشاہدہ کو بروئے کار لائے تاکہ کائنات کے مخفی و سربستہ راز اُس پر آشکار ہوسکیں۔ سائنس کو مذہب کا حریف سمجھا جاتا ہے،لیکن یہ ایک غلط فہمی ہے۔دونوں کا دائرہ کار بالکل مختلف ہے ،مذہب کا مقصد شرف انسانیت کا اثبات اور تحفظ ہے۔وہ انسان کامل کا نمونہ پیش کرتا ہے،سائنس کے دائرہ کار میں یہ باتیں نہیں ہیں،نہ ہی کوئی بڑے سے بڑا سائنس دان انسان کامل کہلانے کا مستحق ہے۔اسی...
آج ہر شخص سائنس اور سائنٹیفک کے الفاظ سے تقریبا تقریبا واقف ہے۔سب جانتے ہیں کہ موجودہ دور سائنس کا دور ہے۔اس کے باوجود اس سوال کا جواب بہت کم لوگ دے سکیں گے کہ سائنس کیا ہے؟عام لوگ ٹیلی ویژن،ریڈیو،ٹیلی فون،ہوائی جہاز،ایٹم بم اور اس قسم کی دوسری ایجادات کو سائنس سمجھتے ہیں،حالانکہ یہ سائنس نہیں ہیں،بلکہ سائنس کا حاصل اور پھل ہیں۔سائنس درحقیقت لاطینی لفظ (Scientia)سے مشتق ہے ،جس کے معنی ہیں غیر جانبداری سے حقائق کا ان کی اصل شکل میں باقاعدہ مطالعہ کرنا۔علت ومعلول اور ان سے اخذ شدہ نتائج کو ایک دوسرے سے منطبق کرنے کی کوشش کرنا یعنی فلاں حالات کے تحت فلاں نتیجہ ظاہر ہوگا۔ پرانے زمانے میں سائنسی عمل کو شخصی ملکیت سمجھا جاتا تھا ۔ آج کل اس کے معنی خاصے بدل گئے ہیں ۔ آج ہر سائنسی کھوج ہر سائنسی عمل اور ہر سائنسی معلومات بنی نوع انسان کا حق بن چکی ہے، سائنس کی ہر کھوج، ہر نتیجہ ہر منزل، ہر تجربہ دنیا کے کیلئے ہے ۔ آج کی سائنس کسی ایک سرکار یا کسی ایک ادارے کی جاگیر نہیں ۔ یہ تو علم کا بہتا دریا ہے جو چاہے دو گھونٹ پی لے اور اگر آدمی علم اور عقل رکھتا ہو اور عمل کو...
سائنس کو اردو میں علم کہتے ہیں اور علم کا مطلب ہوتا ہے جاننا یا آگہی حاصل کرنا، لہذا سائنس کا مطلب بھی جاننے اور آگہی حاصل کرنے کا ہی ہوتا ہے۔ اپنے اردگرد کے ماحول کا مشاہدہ کرنا اور مختلف قدرتی چیزوں کے بارے میں سوچنا ہی سائنس ہے، اور اس طرح غور کرنے اور سوچنے والے شخص کو سائنسدان کہا جاتا ہے۔ یعنی سائنسدان وہ ہوتا ہے جو مشاہدہ کرتا ہے اور سوچ کر کوئی نتیجہ اخذ کرتا ہے۔ سائنسدان کو اردو میں عالم کہتے ہیں اور اس لفظ کی جمع علماء کی جاتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ سائنس دانوں کی کہانیاں‘‘ بلراج پوری اور ڈاکٹر احرار حسین کی مرتب شدہ ہے یہ کتاب خاص طور پر سکولوں کے ابتدائی طلبہ کے لیے مرتب کی گئی ہے ۔ اس کتاب میں سائنس دانوں کےعلم اور ان کی زندگی کی کہانیاں شامل ہیں۔ یہ کہانیاں عام انسانوں کی کہانیاں نہیں ہیں بلکہ یہ ان سائنسدانوں کی کہانیاں ہیں جن کی ایجادات نےدنیا میں انقلاب برپا کردیا ہے ان سائنس دانوں کی کہانیاں پڑھ کر سکولوں میں زیر تعلیم بچوں میں آگے بڑھنے کی لگن اور جذبہ پیدا ہوگا اور انہیں معلوم ہوگا کہ کیسے عام سے انسان دنیا کے بڑے...
سائنس کو مذہب کا حریف سمجھا جاتا ہے،لیکن یہ محض غلط فہمی ہے۔دونوں کا دائرہ کار بالکل مختلف ہے ،مذہب کا مقصد شرف انسانیت کا اثبات اور تحفظ ہے۔وہ انسان کامل کا نمونہ پیش کرتا ہے،سائنس کے دائرہ کار میں یہ باتیں نہیں ہیں،نہ ہی کوئی بڑے سے بڑا سائنس دان انسان کامل کہلانے کا مستحق ہے۔اسی لئے مذہب اور سائنس کا تصادم محض خیالی ہے۔مذہب کی بنیاد عقل وخرد،منطق وفلسفہ اور شہود پر نہیں ہوتی بلکہ ایمان بالغیب پر زیادہ ہوتی ہے۔اسلام نے علم کو کسی خاص گوشے میں محدود نہیں رکھا بلکہ تمام علوم کو سمیٹ کر یک قالب کر دیا ہےاور قرآن مجید میں قیامت تک منصہ شہود پر آنے والے تمام علوم کی بنیاد ڈالی ہے۔چنانچہ مسلمانوں نے تفکر فی الکائنات اور حکمت تکوین میں تامل وتدبر سے کام لیا اور متعددسائنسی اکتشافات سامنے لائے ۔تاریخ میں ایسے بے شمار مسلمان سائنسدانوں کے نام ملتے ہیں،جنہوں نے بے شمار نئی نئی چیزیں ایجاد کیں اور دنیا میں مسلمانوں اور اسلام کا نام روشن کیا۔ زیر تبصرہ کتاب" سائنسی ترقی میں اسلام اور مسلمانوں کی خدمات " محترم حافظ زاہد علی صاح...
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب، مکمل ضابطۂ حیات او رتمام علوم کا عظیم خزینہ ہے۔ احادیثِ مبارکہ قرآن مجید کی تفسیر اور حکمت بیان کرتی ہے ۔صحیح بخاری ومسلم شریف کتاب اللہ کے بعد اتباعِ رسول کا واحد مستند ذریعہ ہے۔ احادیث مبارکہ صحیح سمت انسان کی رہنمائی کرتی ہیں۔ یہ وہ قانون ہے جس میں انسانیت کی تعمیر اور سوسائٹی کی تنظیم کے لیے درست بنیادیں ملتی ہیں ۔ اس میں حکمت ودانائی کی وہ باتیں ہیں جو بنی نوع انسان کی روحانی وجسمانی شفا کا باعث ہیں۔ احادیث مبارکہ اگرچہ سائنس کی کتاب نہیں اور نہ ہی سائنسی تعلیم کی فراہمی کے لیے نازل ہوئی ہیں تاہم یہ کسی سائنسی انسائیکلوپیڈیا سے کم بھی نہیں ہیں۔ ان میں ایسے سائنسی حقائق موجود ہیں جہاں آج کی جدید سائنس بھی ان کی حدود کے ادراک اورتعین کی دسترس نہیں رکھتی۔ زیر تبصرہ مقالہ ’’صحیحین کی روایات اور سائنسی حقائق کا تقابلی مطالعہ‘‘ محترمہ باثرہ شغیف کی کاوش ہے جسے انہوں نے ایم ایس علوم اسلامیہ کی ڈگری کےحصول کے لیے ڈاکٹر زاہدہ شبنم صاحبہ کی نگرانی مکمل کر کے شعبہ علوم اسلامیہ لاہور کالج برائے خواتین یو...
محترم ڈاکٹر ذاکر نائیک ﷾ہندوستان کے ایک معروف مبلغ اور داعی ہیں۔آپ اپنے خطبات اور لیکچرز میں اسلام اور سائنس کے حوالے سے بہت زیادہ گفتگو کرتے ہیں ،اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے جو کچھ بتا دیا تھا ،آج کی جدید سائنس اس کی تائید کرتی نظر آتی ہے۔اور یہ کام وہ زیادہ تر غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دیتے وقت کرتے ہیں ،تاکہ ان کی عقل اسلام کی حقانیت اور عالمگیریت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔اسلام اگرچہ سائنس کی تائید کا محتاج نہیں ہے ،اور اس کا پیغام امن وسلامتی اتنا معروف اور عالمگیر ہے کہ اسے مسلم ہو یا غیر مسلم دنیا کا ہر آدمی تسلیم کرتا ہے۔لیکن میرے خیال میں سائنس سے اسلام کی تائید میں غیر مسلموں کو کوئی عقلی دلیل پیش کرنے میں کوئی برائی والی بات بھی نہیں ہے۔ ۔ زیر تبصرہ کتاب " قرآن اور جدید سائنس، موافق یا ناموافق " بھی محترم ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب﷾ کی کاوش ہے جو اسی ضمن میں لکھی گئی ہےجو انگریزی زبان میں ہے اور اس کا اردو ترجمہ محترم ڈاکٹر عبد...
سائنس کو مذہب کا حریف سمجھا جاتا ہے،لیکن یہ محض غلط فہمی ہے۔دونوں کا دائرہ کار بالکل مختلف ہے ،مذہب کا مقصد شرف انسانیت کا اثبات اور تحفظ ہے۔وہ انسان کامل کا نمونہ پیش کرتا ہے،سائنس کے دائرہ کار میں یہ باتیں نہیں ہیں،نہ ہی کوئی بڑے سے بڑا سائنس دان انسان کامل کہلانے کا مستحق ہے۔اسی لئے مذہب اور سائنس کا تصادم محض خیالی ہے۔مذہب کی بنیاد عقل وخرد،منطق وفلسفہ اور شہود پر نہیں ہوتی بلکہ ایمان بالغیب پر زیادہ ہوتی ہے۔اسلام نے علم کو کسی خاص گوشے میں محدود نہیں رکھا بلکہ تمام علوم کو سمیٹ کر یک قالب کر دیا ہےاور قرآن مجید میں قیامت تک منصہ شہود پر آنے والے تمام علوم کی بنیاد ڈالی ہے۔چنانچہ مسلمانوں نے تفکر فی الکائنات اور حکمت تکوین میں تامل وتدبر سے کام لیا اور متعددسائنسی اکتشافات سامنے لائے ۔تاریخ میں ایسے بے شمار مسلمان سائنسدانوں کے نام ملتے ہیں،جنہوں نے بے شمار نئی نئی چیزیں ایجاد کیں اور دنیا میں مسلمانوں اور اسلام کا نام روشن کیا۔ زیر تبصرہ کتاب" مسلمان سائنس دان اور ان کی خدمات " محترم ابراہیم عمادی ندوی صاحب &nbs...
ازمنہ وسطی کے کلیسائی ظلم و جبر کے خلاف جب یورپ میں ایک بیداری کی لہر اٹھی تو اہل یورپ میں بغاوت مذہب کے میلانات شدت پکڑ گئے ۔ مذہب سے سرعام اظہار تنفر کیا جانے لگا ۔ بلکہ اپنی زندگی کی اساس ہی مخالفت مذہب پر اٹھائی جانے لگی ۔ نتیجۃ ایک ایسی زندگی سامنے آئی جس میں سوسائیٹی کی بنیاد لامذہبیت قرار پائی ۔ اور مذہب کا خلا سائنس سے پر کرنے کی کوشش کی جانے لگی ۔ اس کے لیے تمام تر مفکرین یورپ متحد ہو گئے اور بھرپور کوشش کرنے لگے کہ ایسے نظریات اور افکار سامنے لائے جائیں جو ایک طرف تمدن و تہذیب کی اساس بنیں اور دوسری طرف ضرورت مذہب ختم کریں ۔ زیر تبصرہ کتاب کے مصنف ڈاکٹر ڈرائپر نے مذہب اور سائنس کی اس کشمکش کو جو صدیوں پر محیط تھی اسے تاریخی طور پر سامنے لانے کی کوشش کی ہے ۔ اس سلسلے میں موصوف یونان سے لیکر جدید یورپ تک کی تمام تاریخ کو سامنے لے کر آئے ہیں ۔ تاہم درمیان میں جب مسلمانوں کے حوالے سے تذکرہ کرتے ہیں تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ موصوف کی اس بارے میں معلومات انتہائی ناقص ہیں ۔ مثلا وہ کہتے ہیں کہ محمدﷺ نے جو پیغام دنیا کو دیا تھا وہ نسطوری عیسائیوں سے لیا گیا تھا ۔ وغیرہ تاہم...
شاید ہی دنیا کا کوئی علم ایسا ہو جسے مسلمانوں نے حاصل نہ کیا ہو۔ اسی طرح سائنس کے میدان میں بھی مسلمانوں نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے جو رہتی دنیا تک قائم رہیں گے۔ گوکہ آج اہل یورپ کا دعویٰ ہے کہ سائنس کی تمام تر ترقی میں صرف ان کا حصہ ہے مگر اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ تجرباتی سائنس کی بنیاد مسلمانوں نے ہی رکھی ہے اور اس کا اعتراف آج کی ترقی یافتہ دنیا نے بھی کیاہے۔ اس ضمن میں ایک انگریز مصنف اپنی کتاب ’’میکنگ آف ہیومینٹی‘‘ میں لکھتا ہے:’’مسلمان عربوں نے سائنس کے شعبہ میں جو کردار داا کیا وہ حیرت انگیز دریافتوں یا انقلابی نظریات تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کی ترقی یافتہ سائنس ان کی مرہون منت ہے‘‘۔علم ہیئت و فلکیات کے میدانوں میں مسلمان سائنسدانوں کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ انہوں نے یونانی فلسفے کے گرداب میں پھنسے علم الہیئت کو صحیح معنوں میں سائنسی بنیادوں پر استوار کیا۔اور مغرب کے دور جدید کی مشاہداتی فلکیات (Observational Astronomy) میں استعمال ہونے والا لفظ Almanac بھی عربی...
مادہ پرستی(Materialism) آج کے دور کا سب سے بڑا شرک ہے۔ اس فلسفہ کے مطابق اس کائنات کا کوئی خالق موجودنہیں ہے یعنی فرعون ونمرود کی طرح اس فلفسہ کے قائلین نے بھی اس کائنات کے رب وخالق ومالک و رازق ومدبرکا انکار کیا ہے اور مادہ (Matter)ہی کو اصل یا کل حقیقت قرار دیا ہے۔ اس فلسفہ کے مطابق مادہ قدیم اور ہمیشہ سے ہے اور ہر دور میں اپنی شکلیں بدلتا رہا ہے ۔ پس اس کائنات یا انسان کا وجود ایک حادثہ ہے جس کے پیچھے کوئی محرک، مسبب الاسباب یا علۃ العلل موجود نہیں ہے۔مادہ پرستوں یا منکرین خدا کی ایک الجھن ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ اگر ہم خدا کے وجود کا انکار کر دیں تو اہل مذہب کے بالمقابل اس کائنات اور انسان کے بارے کیا توجیہ پیش کریں کہ یہ انسان کہاں سے آیا ہے؟ کیسے پیدا ہوا ہے؟ یہ کائنات کیسے وجود میں آ گئی ہے؟واقعہ یہ ہے کہ ان سوالات کا کوئی جواب مادہ پرستوں کے پاس نہیں تھا یہاں تک کہ ڈاروان نے اپنا نظریہ ارتقا پیش کیا تو مادہ پرستوں کی تو گویا عید اور چاندی ہو گئی اور انہیں اس کائنات اور انسان کے وجود کے بارے ایک عقلی ومنطقی توجیہ ہاتھ آ گئی۔ ڈارون نے ارتقا کا جو نظریہ پیش کیا تھا وہ ا...
انسانی تخلیق میں اللہ تعالی کی جو حکمت، قدرت، تدبیر اور مناسبت کار فرما ہے سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کی نئی نئی جہتیں سامنے آ رہی ہیں۔ایسے ہی مظاہر قدرت میں جنیٹک سائنس سے حاصل ہونے والی معلومات بھی ہیں۔انسان کے جسم کا بے شمار خلیات سے مرکب ہونا، ہر خلیہ پر جین کی ایک بہت بڑی تعداد کا قیام پذیر ہونا اور ان جینوں کا انسان کی مختلف صلاحیتوں اور قوتوں پر اثر انداز ہونا کارخانہ قدرت کا ایسا اعجاز ہے کہ جس کا رمز آشنا ایک مسلمان ڈاکٹر کے بہ قول دو ہی صورتوں میں ایمان سے محروم رہ سکتا ہے، یا تو اس کے دماغ میں خلل ہو یا وہ توفیق خداوندی سے محروم ہو۔جنیٹک سائنس جہاں خدا کی بے پناہ قدرت اور اس کی حکمت و تدبیر سے پردہ اٹھاتی ہےاور علاج کے باب میں ایک چراغ امید بن کر آئی ہے، وہاں بہت سارے شرعی مسائل بھی ان تحقیقات کے پس منظر میں پیدا ہو گئے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب" ڈی این اے ٹسٹ اور جنیٹک سائنس سے متعلق شرعی مسائل" ایفا پبلیکیشنز، نئی دہلی کی شائع کردہ ہے، جس میں انہوں نے پندرہویں فقہی سیمینار منعقدہ میسور مؤرخہ 11...
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہونے کے ساتھ ساتھ دینِ فطرت بھی ہے جو اُن تمام اَحوال و تغیرات پر نظر رکھتا ہے جن کا تعلق اِنسان اور کائنات کے باطنی اور خارجی وُجود کے ظہور سے ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اِسلام نے یونانی فلسفے کے گرداب میں بھٹکنے والی اِنسانیت کو نورِ علم سے منوّر کرتے ہوئے جدید سائنس کی بنیادیں فراہم کیں۔ قرآنِ مجید کا بنیادی موضوع ’’اِنسان‘‘ ہے، جسے سینکڑوں بار اِس اَمر کی دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش وُقوع پذیر ہونے والے حالات و واقعات اور حوادثِ عالم سے باخبر رہنے کے لئے غور و فکر اور تدبر و تفکر سے کام لے اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ شعور اور قوتِ مُشاہدہ کو بروئے کار لائے تاکہ کائنات کے مخفی و سربستہ راز اُس پر آشکار ہوسکیں۔ سائنس کو مذہب کا حریف سمجھا جاتا ہے،لیکن یہ ایک غلط فہمی ہے۔دونوں کا دائرہ کار بالکل مختلف ہے ،مذہب کا مقصد شرف انسانیت کا اثبات اور تحفظ ہے۔وہ انسان کامل کا نمونہ پیش کرتا ہے،سائنس کے دائرہ کار میں یہ باتیں نہیں ہیں،نہ ہی کوئی بڑے سے بڑا سائنس دان انسان کامل کہلانے کا مستحق ہے۔اسی لئے مذ...
انسا ن کو بیماری کا لاحق ہو نا من جانب اللہ ہے اوراللہ تعالی نے ہر بیماری کا علاج بھی نازل فرمایا ہے جیسے کہ ارشاد نبویﷺ ہے ’’ اللہ تعالی نے ہر بیماری کی دواء نازل کی ہے یہ الگ بات ہے کہ کسی نےمعلوم کر لی اور کسی نے نہ کی ‘‘بیماریوں کے علاج کے لیے معروف طریقوں(روحانی علاج،دواء اور غذا کے ساتھ علاج،حجامہ سے علاج) سے علاج کرنا سنت سے ثابت ہے ۔ روحانی اور جسمانی بیماریوں سےنجات کے لیے ایمان او ر علاج کے درمیان ایک مضبوط تعلق ہے اگر ایمان کی کیفیت میں پختگی ہو گی تو بیماری سے شفاء بھی اسی قدر تیزی سے ہوگی ۔نبی کریم ﷺ جسمانی وروحانی بیماریوں کا علاج جن وظائف اور ادویات سے کیا کرتے تھے یاجن مختلف بیماریوں کےعلاج کےلیے آپﷺنے جن چیزوں کی نشاندہی کی اور ان کے فوائد ونقصان کو بیان کیا ان کا ذکر بھی&nb...