اس روئے ارضی پر انسانی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ کے بعد حضرت محمد ﷺ ہی ،وہ کامل ترین ہستی ہیں جن کی زندگی اپنے اندر عالمِ انسانیت کی مکمل رہنمائی کا پور سامان رکھتی ہے ، رہبر انسانیت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی شخصیت قیامت تک آنے والےانسانوں کےلیےبہترین نمونہ ہے اور دنیا جہان کے تمام انسانوں کے لیے مکمل اسوۂ حسنہ اور قابل اتباع ہیں ۔ گزشتہ چودہ صدیوں میں اس ہادئ کامل ﷺ کی سیرت وصورت پر ہزاروں کتابیں اورلاکھوں مضامین لکھے جا چکے ہیں ۔اورکئی ادارے صرف سیرت نگاری پر کام کرنے کےلیےمعرض وجود میں آئے ۔اور پورے عالمِ اسلام میں سیرت النبی ﷺ کے مختلف گوشوں پر سالانہ کانفرنسوں اور سیمینار کا انعقاد کیا جاتاہے جس میں مختلف اہل علم اپنے تحریری مقالات پیش کرتے ہیں۔پاکستان میں ہر سال وزارت مذہبی امور کے زیر انتظام سیرت کانفرنس منعقد ہوتی ہے کا نفرنس میں خاص موضوع پر پیش کیے جانے والے مقالات کو کتابی صورت میں پیش کیا جاتاہے۔&n...
اس روئے ارضی پر انسانی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ کے بعد حضرت محمد ﷺ ہی ،وہ کامل ترین ہستی ہیں جن کی زندگی اپنے اندر عالمِ انسانیت کی مکمل رہنمائی کا پور سامان رکھتی ہے ، رہبر انسانیت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی شخصیت قیامت تک آنے والےانسانوں کےلیےبہترین نمونہ ہے اور دنیا جہان کے تمام انسانوں کے لیے مکمل اسوۂ حسنہ اور قابل اتباع ہیں ۔ گزشتہ چودہ صدیوں میں اس ہادئ کامل ﷺ کی سیرت وصورت پر ہزاروں کتابیں اورلاکھوں مضامین لکھے جا چکے ہیں ۔اورکئی ادارے صرف سیرت نگاری پر کام کرنے کےلیےمعرض وجود میں آئے ۔اور پورے عالمِ اسلام میں سیرت النبی ﷺ کے مختلف گوشوں پر سالانہ کانفرنسوں اور سیمینار کا انعقاد کیا جاتاہے جس میں مختلف اہل علم اپنے تحریری مقالات پیش کرتے ہیں۔پاکستان میں ہر سال وزارت مذہبی امور کے زیر انتظام سیرت کانفرنس منعقد ہوتی ہے کا نفرنس میں خاص موضوع پر پیش کیے جانے والے مقالات کو کتابی صورت میں پیش کیا جاتاہے۔&n...
زیر نظر کتاب ’’ مقالات قومی سیرت کانفرنس 2001ء (برائے مرد) ‘‘قومی سیرت کانفرنس میں کانفرنس کے خاص دو موضوع ’’ اسلامی نظم معیشت اور کفالت عامہ میں زکوٰۃ کی اہمیت تعلیمات نبویﷺ کی روشنی میں ‘‘اور ’’معاشرتی و معاشی ارتقاء میں زکوٰۃ و عشر کا کردار تعلیمات نبوی ﷺ کی روشنی میں ‘‘سے متعلق مختلف اہل قلم کی طرف سے پیش کیے جانے والے علمی و تحقیقی مقالات و خطبات کی کتابی صورت ہے حصہ الف خطبات و تقاریر جبکہ حصہ ب مقالات سیرت پر مشتمل ہے ۔ وزارت مذہبی امور پاکستان نے اسے مرتب کر کے طباعت سے آراستہ کیا ہے ۔ (م۔ا)
مولانا محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے چند مامور شاگردوں میں سے ایک ہیں ۔آپ اپنے وقت کےبہت بڑے محدث،مفسر، محقق، مدرس ، مفتی،ادیب اور نقاد تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم کی غیر معمولی بصیرت وبصارت،نظر وفکرکی گہرائی ،تحقیق وتنقیح میں باریک بینی اور ژرف نگاہی عطاء فرمائی تھی ۔زہد وتقوی ،اخلاص وللّٰہیت،حسن عمل اور حسن اخلاق کے پیکر تھے۔یہ ایک حقیقت ہےکہ’’برصغیر پاک وہند میں علم حدیث‘‘ کی تاریخ تب تلک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں مولانا عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری کی خدمات اور ان کا تذکرہ نہ ہو۔جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی ان ہی کی تصنیف ہے۔ اس شرح سے ان کو برصغیر کے علاوہ عالم ِاسلام میں شہرت ومقبولیت حاصل ہوئی۔ حدیث اور تعلیقات حدیث پر ان کو عبور کامل تھا۔ تدریس میں آپ کو خاص ملکہ حاصل تھا۔ تصنیف وتالیف کا بھی عمدہ ذوق رکھتے تھے۔اس شرح کے علاوہ بھی دو درجن سے زائد مختلف عناوین پر ان کی تحقیقی کاوشیں صحیفۂ قرطاس پر مرتسم ہیں ۔مولانا حبیب الرحمن قاسمی (حنفی) فرماتے ہیں کہ ’&rsq...
حضرت محدث گوندلوی اپنے وقت کےعظیم محدث، مفسراور فقیہ تھے۔تمام علوم کےبحر زخار اور علوم و فنون پر کامل گرفت رکھتےتھے۔ آپ وسعت علم کے ساتھ عمل و اخلاق اورزہد و تقویٰ کے بھی پیکر تھے۔ شب زندہ داری اور سنن و مستحبات کی پیروی کا ایسا اہتمام کہ اب ایسا اور کوئی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ اسی شخصیت کا مجموعہ مقالات و رسائل اس وقت آپ کے سامنے ہے جو نگارشات محدث گوندلوی کے فکر کا عکاس ہے۔ اس میں محدث گوندلوی ؒ کے چھ رسائل کو یکجا کیا گیاہے۔ پہلا رسالہ ختم نبوت کےعنوان سے ہے جس میں نبوت کا اثبات ہے۔ دوسرا ’تنقید المسائل‘ جس میں سید مودودی کے افکار پر تنقید ہے۔ اسی طرح باقی رسائل احکام وتر، صلاۃ مسنونہ، اہداء ثواب اور اسلام کی دوسری کتاب کے عنوان سے ہیں۔ ان رسائل میں باذوق قارئین کے لیے نہایت قیمتی معلومات درج ہیں۔ (عین۔ م)
پچھلی صدی کے نصف اول میں جہاں برصغیر نے ایک سے ایک قد آور سیاست دان کو دیکھا ہے‘ وہاں صحافت‘ وکالت‘ شعروشاعری میں بھی صفِ اول کی شخصیتوں کا جُھرمٹ اپنے دامن میں سجا رکھا ہے‘ اور اساطینِ منبر ومحراب اورکاروانِ علم ومعرفت کی بات ہو تو ایسی ضوفشاں مثالیں سامنے آئیں گی جن کے شعور وآگہی کی تمازت ابھی تک دلوں کو گرماتی نظر آتی ہے۔ ان شخصیات میں سے ایک مولانا عبد الرحمان کیلانی بھی ہیں۔زیرِ تبصرہ کتاب مولانا کے حالات زندگی مختصر اور تفصیلی طور پر مختلف مقامات پر درج کر دیے گئے ہیں اور انہوں نے جن موضوعات پر قلم اُٹھایا ان کا حق ادا کرنے کی کوشش کی اور حق ادا بھی کیا۔ اس کتاب میں ان کے چیدہ مقالات کو کتاب کی زینت بنایا گیا ہے۔ کتاب کا اسلوب نہایت عمدہ‘سادہ اور عام فہم ہے۔ یہ کتاب’’ مقالات مولانا عبد الرحمن کیلانی ‘‘مولانا عبد الرحمن کیلانی کی تصنیف کردہ ہے۔آپ تصنیف وتالیف کا عمدہ شوق رکھتے ہیں‘ اس کتاب کے علاوہ آپ کی درجنوں کتب اور بھی ہیں مثلاً تیسیر القرآن جو کہ تفاسیر ماثورہ ...
حافظ عبد المنان نور پور ی(1941ء۔26فروری2012؍1360ھ ۔3ربیع الثانی 1433ھ) کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ۔آپ زہد ورع اورعلم وفضل کی جامعیت کے اعتبار سے اپنے اقران معاصر میں ممتاز تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم وتقویٰ کی خوبیوں اور اخلاق وکردار کی رفعتوں سے نوازا تھا ۔ آپ کا شمار جید اکابر علماء اہل حدیث میں ہوتاہے حافظ صاحب بلند پایا عالمِ دین اور قابل ترین مدرس تھے ۔ حافظ صاحب 1941ءکو ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے اور پرائمری کرنے کے بعد دینی تعلیم جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ سے حاصل کی ۔ حافظ صاحب کوحافظ عبد اللہ محدث روپڑی ،حافظ محمد گوندلوی ، مولانا اسماعیل سلفی وغیرہ جیسے عظیم اساتذہ سے شرفِ تلمذ کا اعزاز حاصل ہے۔ جامعہ محمدیہ سے فراغت کے بعد آپ مستقل طور پر جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں مسند تدریس پر فائز ہوئے&...
پروفیسر عبد القیوم علمی دنیا خصوصاً حاملین علو م اسلامیہ و عربیہ کے حلقہ میں محتاج تعارف نہیں ۔ موصوف 1909ء کولاہور میں پیدا ہوئے۔پروفیسر مرحوم کےخاندان کی علمی اور دینی یادگاروں میں مسجد مبارک کی تاسیس اور اس کی تعمیر وترقی میں نمایاں حصہ لینابھی شامل ہے ۔ جس میں پروفیسر صاحب کے والد محترم او رنانا مولوی سلطان دونوں کابڑا حصہ ہے ۔آپ کےخاندان کی نیک شہرت کا اندازہ اس ا مر سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کےہاں متعدد اہل علم ، مثلاً مولانا قاضی سلیمان سلمان منصورپوری، مولانا سید سلیمان ندوی ، شیخ الاسلام مولانانثاء اللہ امرتسریآمدورفت رکھتے تھے۔پروفیسر صاحب نے ابتدائی عمر میں قرآن مجیدناظرہ پڑھنے کےبعد اپنی تعلیم کا آغاز منشی فاضل کےامتحان سےکیا۔1934ء میں اوری اینٹل کالج سے ایم عربی کا امتحان پاس کیا۔اور پھرآپ نے1939ء سے لے کر1968ء تک تقریباتیس سال کا عرصہ مختلف کالجز میں عربی زبان وادب کی تدریس اور تحقیق میں صرف کیا ۔ لاہور میں نصف صدی سے زیادہ انہوں نےتعلیم وتعلم کی زندگی گزاری۔ ان کے سیکڑوں شاگرد تعلیم تدریس اورتحقیق کے میدان میں مصروف عمل ہیں ۔علمی زندگی کے س...
خطابت اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ،خاص استعداد وصلاحیت کا نام ہے جس کےذریعے ایک مبلغ اپنے مافی الضمیر کے اظہار ،اپنے جذبات واحساسات دوسروں تک منتقل کرنے اور عوام الناس کو اپنے افکار ونظریات کا قائل بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے ۔ایک قادر الکلام خطیب اور شاندار مقرر مختصر وقت میں ہزاروں ،لاکھوں افراد تک اپنا پیغام پہنچا سکتا ہے اوراپنے عقائد ونظریات ان تک منتقل کرسکتا ہے۔خطابت صرف فن ہی نہیں ہے بلکہ اسلام میں خطابت اعلیٰ درجہ کی عبادت اورعظیم الشان سعادت ہے ۔خوش نصیب ہیں وہ ہستیاں جن کومیدانِ خطابت کے لیے پسند کیا جاتا ہے۔شعلہ نوا خطباء حالات کادھارا بدل دیتے ہیں،ہواؤں کےرخ تبدیل کردیتے ،معاشروں میں انقلاب بپا کردیتے ہیں ۔تاریخ کےہر دورمیں خطابت کو مہتم بالشان اور قابل فخر فن کی حیثیت حاصل رہی ہے اور اقوام وملل او رقبائل کے امراء وزعما کے لیے فصیح اللسان خطیب ہونا لازمی امرتھا۔قبل از اسلام زمانہ جاہلیت کی تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالیں تو اس دور میں بھی ہمیں کئی معروف...
مولانا زکریا روپڑی خاندان روپڑیہ کےفیض یافتہ منجھے ہوئے عالم دین، صاحب فکر ودانش ، دینی ودنیاوی علم سےبہرہ ور اور روشن فکر کےحامل تھے ۔انہوں نےاپنے حلقۂ اثر میں مسلسل 30 خطابت کی ۔مولانا اپنی خطابتی ذمہ داریاں ادار کرتے ہوئے اپنے بیان کیے گئے خطابات کو اپنی خاص ڈائری میں
خطابت اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ، خاص استعداد وصلاحیت کا نام ہے جس کے ذریعے ایک مبلغ اپنے مافی الضمیر کے اظہار، اپنے جذبات واحساسات دوسروں تک منتقل کرنے اور عوام الناس کو اپنے افکار ونظریات کا قائل بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ بلاشک وشبہ قدرتِ بیان ایسی نعمت جلیلہ اور ہدیۂ عظمہ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کوعطا فرماتا ہے اور خطابت وبیان کے ذریعے انسان قیادت وصدارت کی بلندیوں کوحاصل کرتا ہے۔ جوخطیب کتاب وسنت کے دلائل وبراہین سے مزین خطاب کرتا ہے اس کی بات میں وزن ہوتا ہےجس کاسامعین کے روح وقلب پر اثر پڑتا ہے۔ اور خطبۂ جمعہ کوئی عام درس یا تقریر نہیں بلکہ ایک انتہائی اہم نصیحت ہے جسے شریعتِ اسلامیہ میں فرض قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ اس میں بہت سارے وہ لوگ بھی شریک ہوتے ہیں جو عام کسی درس وتقریر وغیرہ میں شرکت نہیں کرتے۔ اس لیے خطبا حضرات کے لیےضروری ہے کہ وہ خطبات میں انتہائی اہم مضامین پر گفتگو فرمائیں جن میں عقائد کی اصلاح، عبادات کی ترغیب، اخلاقِ حسنہ کی تربیت، معاملات میں درستگی، آخرت کا فکر اورتزکیۂ نفس ہو۔ زیر تبصرہ کتاب ’’مواعظ حسنہ&l...
خطابت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ،خاص استعداد وصلاحیت کا نام ہے، جس کےذریعے ایک مبلغ اپنے مافی الضمیر کے اظہار ،اپنے جذبات واحساسات کودوسروں تک منتقل کرنے اور عوام الناس کو اپنے افکار ونظریات کا قائل بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے ۔ایک قادر الکلام خطیب اور شاندار مقرر مختصر وقت میں ہزاروں ،لاکھوں افراد تک اپنا پیغام پہنچا سکتا ہے اوراپنے عقائد ونظریات ان تک منتقل کرسکتا ہے۔خطابت صرف فن ہی نہیں ہے بلکہ اسلام میں خطابت اعلیٰ درجہ کی عبادت اورعظیم الشان سعادت ہے ۔خوش نصیب ہیں وہ ہستیاں جن کومیدانِ خطابت کے لیے پسند کیا جاتا ہے۔شعلہ نوا خطباء حالات کادھارا بدل دیتے ہیں،ہواؤں کےرخ تبدیل کردیتے ،معاشروں میں انقلاب بپا کردیتے ہیں ۔تاریخ کےہر دورمیں خطابت کو مہتم بالشان اور قابل فخر فن کی حیثیت حاصل رہی ہے اور اقوام وملل او رقبائل کے امراء وزعما کے لیے فصیح اللسان خطیب ہونا لازمی امرتھا۔قبل از اسلام زمانہ جاہلیت کی تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالیں تو اس دور میں بھی ہمیں کئی معروف ِ زمانہ فصیح اللسان اور سحر بیان خطباء اس فن کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے نظرآتے ہیں۔دورِ...
قرآنِ مجید پوری انسانیت کے لیے کتاب ِہدایت ہے اور اسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے ۔ اسے پڑھنے پڑھانے والوں کو امامِ کائنات نے اپنی زبانِ صادقہ سے معاشرے کے بہترین لوگ قرار دیا ہے اور اس کی تلاوت کرنے پر اللہ تعالیٰ ایک ایک حرف پر ثواب عنایت کرتے ہیں ۔ دور ِصحابہ سے لے کر عصر حاضر تک بے شمار اہل علم نے اس کی تفہیم و تشریح اور ترجمہ و تفسیر کرنے کی خدمات سر انجام دیں اور ائمہ محدثین نے کتبِ احادیث میں باقاعدہ ابواب التفسیر کے نام سے باب قائم کیے ۔ اور بے شمار ائمہ مفسرین نے عربی زبان میں مستقل بیسیوں تفاسیر لکھیں ہیں جن میں سے کئی تفسیروں کے اردو زبان میں تراجم بھی ہوچکے ہیں ۔ زیر نظر مقالہ بعنوان ’’ موجودہ تحریک فہم قرآن کا جائزہ ‘‘ محترمہ نائلہ طفیل ملک صاحبہ کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جسے انہوں نے ڈاکٹر حمید اللہ عبد القادر ﷾ کی نگرانی میں مکمل کر کے 2003 ء میں جامعہ پنجاب میں پیش کیا اور ایم اے اسلام...
مولانا اشرف علی تھانوی تھانہ بھون ضلع اترپردیش میں 1863ء کوپیداہوئے ابتدائی تعلیم میرٹھ میں ہوئی فارسی کی ابتدائی کتابیں یہیں پڑھیں اور حافظ حسین مرحوم دہلوی سے کلام پاک حفظ کیا پھر تھانہ بھون آکر حضرت مولانا فتح محمد صاحب سے عربی کی ابتدائی اور فارسی کی اکثر کتابیں پڑھیں ذوالقعدہ 1295ھ میں آپ بغرض تحصیل وتکمیل علوم دینیہ دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے اور پانچ سال تک یہاں مشغول تعلیم رہ کر 1301ھ میں فراغت حاصل کی اس وقت آپ کی عمر تقریباً19سال تھی زمانہ طالب علمی میں حضرت میل جول سے الگ تھلگ رہتے اگر کتابوں سے کچھ فرصت ملتی تو اپنے استاد خاص حضرت مولانا محمد یعقوب کی خدمت میں جابیٹھتے۔ تکمیل تعلیم کے بعد والد اور اساتذہ کرام کی اجازت سے آپ کانپور تشریف لے گئے اور مدرسہ فیض عام میں پڑھانا شروع کر دیا چودہ سال تک وہاں پرفیض کو عام کرتے رہے،1315ھ میں کانپور چھوڑکر آپ آبائی وطن تھانہ بھون تشریف لائے اور یہاں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی خانقاہ کو نئے سرے سے آباد کیا اور مدرسہ اشرفیہ کے نام سے ایک درسگاہ کی بنیاد رکھی جہاں آخر دم تک تدریس،تزک...
راقم کی یہ کوشش رہی ہے کہ روزانہ فیس پر کسی علمی، تحقیقی اور فکری مسئلے میں کوئی مختصر تحریر شیئر کر دی جائے۔ اس طرح تین سال کے عرصے میں کافی ساری تحریریں جمع ہو گئیں کہ جن میں سے اکثر تحریریں مختلف دوستوں کے سوالات کے جوابات میں تھیں۔ ان میں سے اکثر موضوعات اس قابل تھے کہ انہیں کتابی صورت دی جاتی تو ان تحریروں میں سے منتخب تحریروں کی تہذیب وتنقیح کے بعد انہیں “مکالمہ” کے عنوان سے ایک کتاب کی صورت میں جمع کیا گیا ہے۔ بعض دوستوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ وہ میری فیس بک تحریریں کاپی کر کے اپنے پاس کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ وغیرہ میں محفوظ کر لیتے ہیں کہ وہ انہیں اچھی لگتی ہیں اور وہ دوسروں کو بھی فارورڈ کرتے رہتے ہیں۔ تو اس سے یہ احساس پیدا ہوا کہ خود سے ہی ان تحریروں کو جمع کر کے ایک کتابی صورت دے دی جائے۔ پھر یہ بھی ہوا کہ بعض ویب سائیٹس مثلاً “دلیل” وغیرہ پر بعض تحریریں کالموں کی صورت میں جب شائع ہوئیں تو بعض کالموں کے ویورز کی تعداد پچاس ہزار کو بھی پہنچ گئی اور ان کو شیئر کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہو گئی۔ تو اس سے بھی توجہ ہوئی کہ کچ...
خطابت اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ،خاص استعداد وصلاحیت کا نام ہے جس کےذریعے ایک مبلغ اپنے مافی الضمیر کے اظہار ،اپنے جذبات واحساسات دوسروں تک منتقل کرنے اور عوام الناس کو اپنے افکار ونظریات کا قائل بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے ۔ایک قادر الکلام خطیب اور شاندار مقرر مختصر وقت میں ہزاروں ،لاکھوں افراد تک اپنا پیغام پہنچا سکتا ہے اوراپنے عقائد ونظریات ان تک منتقل کرسکتا ہے۔خطابت صرف فن ہی نہیں ہے بلکہ اسلام میں خطابت اعلیٰ درجہ کی عبادت اورعظیم الشان سعادت ہے ۔خوش نصیب ہیں وہ ہستیاں جن کومیدانِ خطابت کے لیے پسند کیا جاتا ہے۔شعلہ نوا خطباء حالات کادھارا بدل دیتے ہیں،ہواؤں کےرخ تبدیل کردیتے ،معاشروں میں انقلاب بپا کردیتے ہیں ۔تاریخ کےہر دورمیں خطابت کو مہتم بالشان اور قابل فخر فن کی حیثیت حاصل رہی ہے اور اقوام وملل او رقبائل کے امراء وزعما کے لیے فصیح اللسان خطیب ہونا لازمی امرتھا۔قبل از اسلام زمانہ جاہلیت کی تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالیں تو اس دور میں بھی ہمیں کئی معروف ِ زمانہ فصیح اللسان اور سحر بیان خطباء اس فن کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے نظرآتے ہیں۔دورِ اسلام میں فنِ خط...
کسی بھی قوم کی نشوونما اور تعمیر وترقی کےلیے عدل وانصاف ایک بنیادی ضرورت ہے ۔جس سے مظلوم کی نصرت ،ظالم کا قلع قمع اور جھگڑوں کا فیصلہ کیا جاتا ہے اورحقوق کو ان کےمستحقین تک پہنچایا جاتاہے اور دنگا فساد کرنے والوں کو سزائیں دی جاتی ہیں ۔تاکہ معاشرے کے ہرفرد کی جان ومال ،عزت وحرمت اور مال واولاد کی حفاظت کی جا سکے ۔ یہی وجہ ہے اسلام نے ’’قضا‘‘یعنی قیام عدل کاانتہا درجہ اہتمام کیا ہے۔اوراسے انبیاء کی سنت بتایا ہے۔اور نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں میں فیصلہ کرنے کا حکم دیتےہوئے فرمایا:’’اے نبی کریم ! آپ لوگوں کےدرمیان اللہ کی نازل کردہ ہدایت کے مطابق فیصلہ کریں۔‘‘نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ مسلمانوں کے لیے دین ودنیا کے تمام امور میں مرجع کی حیثیت رکھتی ہے ۔ آپ کی تنہا ذات میں حاکم،قائد،مربی،مرشد اور منصف اعلیٰ کی تمام خصوصیات جمع تھیں۔جو لوگ آپ کے فیصلے پر راضی نہیں ہوئے&nb...
محترم عرفان صدیقی کا شمار پاکستان کے ان نامور کالم نگاروں میں ہوتا ہے جن کا کالم مذہبی، سیاسی اور علمی حلقوں میں یکساں مقبولیت رکھتا ہے۔ وہ جب کاغذ پر قلم رکھتے ہیں تو موج دریا ٹھہر سی جاتی ہے اور الفاظ دست بستہ ان کی خدمت میں حاضر نظر آتے ہیں۔ ان کا کالم جہاں معلومات کا بحر بے کنار ہوتا ہے وہیں ادب کی چاشنی بھی لیے ہوتا ہے۔ 2001ء وہ خون آشام سال تھا جس میں ایک فوجی ڈکٹیٹر نے امریکہ کی ایک دھمکی پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کا پیمان کر لیا۔ اس کے بعد افغانستان میں جو کچھ ہوا وہ سب کچھ اس کتاب میں رقم کر دیا گیا ہے۔ ’نقش خیال‘ در اصل ان کالموں کا مجموعہ ہے جو طالبان، افغانستان اور امریکی یلغار کے تناظر میں لکھے گئے اور روزنامہ ’نوائے وقت‘ میں شائع ہوتے رہے۔ افغانستان اور طالبان کے حوالے سے ہمارے ہاں بہت سے شبہات پائے جاتے ہیں اس کتاب کے مطالعے کے بعد افغانستان کی شفاف تصویر سامنے آ جائے گی۔ عرفان صدیقی صاحب کے کالم کی پسندیدگی کی ایک یہ بھی ہے کہ انھوں نے کالم کے معیار کو مستقلاً برقرار رکھا اور اس کی دلکشی میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ انھوں نے کالم میں شعر و ادب ک...
مولانا ابو الکلام11نومبر1888ء کو پیدا ہوئے اور 22 فروری1958ءکو وفات پائی۔مولانا ابوالکلام آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا۔آپ کے والد بزرگوارمحمد خیر الدین انہیں فیروزبخت (تاریخی نام) کہہ کر پکارتے تھے۔ آپ میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا ۔سلسلہ نسب شیخ جمال الدین سے ملتا ہے جو اکبر اعظم کے عہد میں ہندوستان آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔1857ء کی جنگ آزادی میں آزاد کے والد کو ہندوستان سے ہجرت کرنا پڑی کئی سال عرب میں رہے۔ مولانا کا بچپن مکہ معظمہ اور مدینہ میں گزرا ۔ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی۔ پھر جامعہ ازہرمصر چلے گئے۔ چودہ سال کی عمر میں علوم مشرقی کا تمام نصاب مکمل کر لیا تھا۔مولانا کی ذہنی صلاحتیوں کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں ماہوار جریدہ لسان الصدق جاری کیا۔ جس کی مولانا الطاف حسین حالی نے بھی بڑی تعریف کی۔ 1914ء میں الہلال نکالا۔ یہ اپنی طرز کا پہلا پرچہ تھا۔ ترقی پسند سیاسی تخیلات اور عقل پر پوری اترنے والی مذہبی ہدایت کا گہوارہ اور بلند پایہ سنجیدہ ادب کا نمونہ تھا۔آپ ایک سنی المسلک انس...
خطابت اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ،خاص استعداد وصلاحیت کا نام ہے جس کےذریعے ایک مبلغ اپنے مافی الضمیر کے اظہار ،اپنے جذبات واحساسات دوسروں تک منتقل کرنے اور عوام الناس کو اپنے افکار ونظریات کا قائل بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے ۔ایک قادر الکلام خطیب اور شاندار مقرر مختصر وقت میں ہزاروں ،لاکھوں افراد تک اپنا پیغام پہنچا سکتا ہے اوراپنے عقائد ونظریات ان تک منتقل کرسکتا ہے۔خطابت صرف فن ہی نہیں ہے بلکہ اسلام میں خطابت اعلیٰ درجہ کی عبادت اورعظیم الشان سعادت ہے ۔خوش نصیب ہیں وہ ہستیاں جن کومیدانِ خطابت کے لیے پسند کیا جاتا ہے۔شعلہ نوا خطباء حالات کادھارا بدل دیتے ہیں،ہواؤں کےرخ تبدیل کردیتے ،معاشروں میں انقلاب بپا کردیتے ہیں ۔تاریخ کےہر دورمیں خطابت کو مہتم بالشان اور قابل فخر فن کی حیثیت حاصل رہی ہے اور اقوام وملل او رقبائل کے امراء وزعما کے لیے فصیح اللسان خطیب ہونا لازمی امرتھا۔قبل از اسلام زمانہ جاہلیت کی تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالیں تو اس دور میں بھی...
حضرت مولانا اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ کثرت مشاغل کے سبب بہت تھوڑا لکھ سکے لیکن جتنا لکھا ہزاروں صفحات پر بھاری تھا کہ ہر قدر شناس نے اس کا خیر مقدم کیا اور ان کی تحریرات کو سلفی منہج و فکر کے احیا کے لیے نعمت غیر مترقبہ قرار دیا گیا۔ زیر نظر مجموعہ میں حضرت سلفی کی تمام مطبوعہ منتشر تحریرات جمع کی گئی ہیں، جس میں ان کے تحریرفرمودہ کتب و رسائل، مضامین و مقالات، فتاویٰ، مکاتیب، مقدمات اور تعلیقات و حواشی شامل ہیں۔ ان مضامین میں جماعت اہل حدیث کی تاریخی خدمات کا بخوبی تجزیہ و تعارف کرایا گیا ہے اور مختلف حوادث و واقعات کے تناظر میں اس طائفہ کی کثیر الجہت جہود و مساعی کو نمایاں کیا گیا ہے۔ سلفی فکر اور منہج اہل حدیث کو ایک دلنشیں اسلوب میں متعارف کرایا گیا ہے۔ مختلف گروہوں کی جانب اس گروہ پر لگائے جانے والے الزامات کی حقیقت کی نقاب کشائی کی گئی ہے۔ اس مجموعہ میں 40 نگارشات شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ عربی میں شائع ہوئے تھے جن کو اردو ترجمہ کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔ (ع۔م)
ڈاکٹر محمد حمید اللہ (پیدائش: 9فروری 1908ء، انتقال: 17 دسمبر 2002ء) ڈاکٹر حمید اللہ ایک بلند پایا عالم دین ، مایہ ناز محقق، دانشور اور مصنف تھے جن کے قلم سے علوم قرآنیہ ، سیرت نبویہ اور فقہ اسلام پر 195 وقیع کتابیں اور 937 کے قریب مقالات نکلے ۔ڈاکٹر صاحب قانون دان اور اسلامی دانشور تھے اور بین الاقوامی قوانین کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ تاریخ ،حدیث پر اعلٰی تحقیق، فرانسیسی میں ترجمہ قرآن ا...
کسی بھی چیزکی فضیلت وشرافت کبھی اس کی عام نفع رسانی کی وجہ سے ظاہر ہوتی ہے اور کبھی ا سکی شدید ضرورت کی وجہ سے سامنے آتی ہے۔ انسان کی پیدائش کے فورا بعد اس کے لئے سب سے پہلے علم کی ہی ضرورت کو محسوس کیا گیا۔اور علم ہی کے بارے میں اللہ فرماتا ہے:"تم میں سے جو لو گ ایمان لائے اور جنہیں علم عطاکیا گیا اللہ ان کے درجات کوبلند کر ے گا"۔پھر اللہ کے نزدیک علم ہی تقویٰ کامعیار بھی ہے ۔نبی کریم نے فرمایا: علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔قرآن وحدیث میں جس علم کی فضیلت واہمیت بیان کی گئی ہے وہ دینی علم یا دین کا معاون علم ہے۔زیر تبصرہ کتاب"پاجا سراغ زندگی"مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کے ان خطبات پر مشتمل ہے جو انہوں نے دار العلوم ندوۃ العلماء کے طلباء کے سامنے مختلف مواقع اور اکثر تعلیمی سال کے آغاز پر پیش کئے۔ان خطبات کا مرکزی خیال ایک ہی تھا کہ ایک طالب علم کی نگاہ کن بلند مقاصد پر رہنی چاہئے اور اپنے محدود ومخصوص ماحول میں رہ کر بھی وہ کیا کچھ بن سکتا ہے اور کیا کچھ کر سکتا ہے۔ان خطبات میں انہ...
خلاصۃ القرآن سےمراد قرآن مجید کی آیات اور سورتوں سے مستنبط ہونے والے احکام اور پیغامات الٰہی کوانتہائی مختصر اندازمیں بیان کرناکہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ استفادہ ممکن ہو ۔یعنی قرآن مجید کے متعدد پاروں اور سورتوں میں بکھرے ہوئے مضامین کو عامۃ الناس کی آسانی کے لیے جمع کرنے کا نام خلاصہ ہے۔ارض ِپاک وہند میں ہماری مادری زبان عربی نہیں اس لیے ہم رمضان المبارک میں امام کی تلاو ت سنتے تو ہیں لیکن اکثر احباب قرآن کریم کے معنیٰ اور مفہوم سےنابلد ہوتےہیں جس کی وجہ سے اکثر لوگ اس مقدس کتاب کی تعلیمات اور احکامات سے محروم رہتے ہیں۔تو اس ضرورت کے پیش نظر بعض مساجد میں اس بات کا اہتمام کیاجاتا ہے کہ قراءت کی جانے والی آیات کا خلاصہ بھی اپنی زبان میں بیان کردیا جائے ۔ بعض اہل علم نے اس کو تحریر ی صورت میں مختصراً مرتب کیا ۔ تاکہ ہر کوئی قرآن کریم سنے اور سمجھے اور اس کے دل میں قرآن مجید کو پڑھنے اور اس پر عمل&nbs...
علم تجوید قرآن مجید کو ترتیل اور درست طریقے سے پڑھنے کا نام ہے علم تجوید کا وجوب کتاب وسنت واجماع امت سے ثابت ہے ۔اس علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ خود صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو وقف و ابتداء کی تعلیم دیتے تھے جیسا کہ حدیث ابن ِعمرؓ سے معلوم ہوتا ہے۔فن تجوید قرآنی علوم کے بنیادی علوم میں سے ایک ہے ۔ اس علم کی تدوین کا آغاز دوسری ہجری صدی کے نصف سے ہوا۔جس طرح حدیث وفقہ پر کام کیا گیا اسی طرح قرآن مجید کے درست تلفظ وقراءت کی طرف توجہ کی گئیعلمائے اسلام نے ہر زمانہ میں درس وتدریس اور تصنیف وتالیف کے ذریعہ اس علم کی دعوت وتبلیغ کو جاری رکها ، متقدمین علماء کے نزدیک علم تجوید پر الگ تصانیف کا طریقہ نہیں تها بلکہ تجوید علم الصرف کا ایک نہایت ضروری باب تها ، متاخرین علماء نے اس علم میں مستقل اور تفصیلی کتابیں لکھیں ہیں ، محمد بن مکی کی کتاب اَلرِّعایَةاس سلسلہ کی پہلی کڑی ہے ، جوکہ چوتهی صدی ہجری میں لکهی گئی۔ علم قراءت بھی ایک الگ فن ہے ائمہ قراءت اور علماء امت نے اس فن بھی پر ہر دور میں مبسوط ومختصر کتب کے تصنیف...