نبی کریمﷺ کی عظمت و توقیراہل ایمان کے ایمان کا بنیادی جزو ہے اور علمائے اسلام دورِ صحابہؓ سے لے کر آج تک اس بات پر متفق رہے ہیں کہ آپ ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنیوالا آخرت میں سخت عذاب کا سامنا کرنے کے علاوہ اس دنیا میں بھی گردن زدنی کے لائق ہے۔ نبی کریم ﷺ کی توہین کرنے والے کی سز ا قتل کے حوالے سے کتبِ احادیث اورتاریخ وسیرت میں بے شمار واقعات موجود ہیں ۔شاتم رسول دوسروں کے دلوں سے عظمت وتوقیر رسول ﷺ گھٹانے کی کوشش کرتا اور ان میں کفر و نفاق کے بیج بوتا ہے، اس لئے توہین ِرسول ﷺکو "تہذیب و شرافت" سے برداشت کرلینا اپنے ایمان سے ہاتھ دھونا اور دوسروں کے ایمان چھن جانے کا راستہ ہموار کرنے کے مترادف ہے۔ نیز ذات رسالت مآب ﷺچونکہ ہر زمانے کے مسلمان معاشرہ کا مرکزو محورہیں اس لئے جو زبان آپﷺ پر طعن کے لیے کھلتی ہے، اگر اسے کاٹانہ جائے اور جو قلم آپﷺ کی گستاخی کیلئے اٹھتا ہے اگر اسے توڑانہ جائے تو اسلامی معاشرہ فساد اعتقادی و عملی کا شکار ہوکر رہ جائیگا۔نبی کریم ﷺکو (نعوذباللہ) نازیبا الفاظ کہنے والا امام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ کے الفاظ میں ساری امت کو گا...
ساری کائنات کا خالق ،مالک اور رازق اللہ تعالی ہے۔وہی اقتدار اعلی کا بلا شرکت غیرے مالک اور انسانوں کا رب رحیم وکریم ہے۔انسانوں کے لئے قوانین حیات مقرر کرنا اسی کا اختیار کلی ہے۔اس کا قانون عدل بے گناہ افراد میں اطمینان خاطر پیدا کرتا ہے اور بڑے جرائم پر اس کی مقرر کردہ سخت سزائیں مجرموں کو ارتکاب جرم سے روکنے ،انہیں کیفر کردار تک پہنچانے اور دوسرے افراد کے لئے عبرت وموعظت کا سامان مہیا کرنے کا باعث ہیں۔اسلامی قانون عدل وانصاف کی ضمانت فراہم کرتا ہے،معاشرتی حقوق کا تحفظ کرتا ہے اور عزت وحرمت کی حفاظت کو یقینی بناتا ہے۔انسانوں اور رب کے باہمی تعلق کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کے قوانین کے نفاذ کے نتیجے میں زندگی میں وہ راحت،آرام اور آسائشیں پیدا ہوں جن کا قرآن حکیم میں بار بار وعدہ کیا گیا ہے۔جس نسل نے تخلیق پاکستان میں حصہ لیا ،اس کے لئے پاکستان میں اسلامی قوانین کا نفاذ ایک سہانا خوان اور جنت گم گشتہ کا حصول تھا۔،لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اسلامی قوانین کے نفاذ کے بعد معاشرے سے فیڈ بیک ملتی ہے وہ کسی طرح حوصلہ افزاء نہیں ہے۔اس لئے اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہ...
فقہی مضامین کو دفعہ وار جدید قانونی کتابوں کے انداز پرمرتب کرنا کہ اس سے عدالتوں اور قانون سے متعلق لوگوں کے لیے استفادہ آسان ہوجاتا ہے ۔ اس کی ابتدا ’’مجلۃ الاحکام العدلیہ‘‘ سے ہوئی جوکہ خلافت عثمانیہ ترکی نے مرتب کروایا۔اس کے بعد مختلف مسلم ممالک میں حکومت کی زیرنگرانی احوالِ شخصیہ سے متعلق مجموعہ قوانین کی ترتیب عمل میں آئی، یہ مجموعے کسی ایک فقہ پر مبنی نہیں تھے؛ بلکہ ان میں مختلف مذاہب سے استفادہ کیا گیا تھا جرم و سزا کے اسلامی قانون سے متعلق ڈاکٹر عبد القادر عودہ شہید کی ’’التشریع الجنائی الاسلامی‘‘984 دفعات پر مشتمل بڑی اہم کتاب ہے۔ زیر نظر کتاب’’اسلام کا فوجدار قانون‘‘ڈاکٹر عبد القادر عودہ شہید کی تصانیف میں سب سے وقیع اور بلند پایہ قانونی تصنیف ’’التشریع الجنائی الاسلامی‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ۔اس کتاب میں اسلامی قانون فوجداری کو جدید قوانینِ مروجہ کی طرح بصورت دفعات مرتب کر کے پیش کیا گیا ہے ۔اور جابجااسلامی قوانین کا مغ...
حدوداللہ سے مراد وہ امور ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے حلت و حرمت بیان کردی ہے اور اس بیان کے بعد اللہ کے احکام اور ممانعتوں سے تجاوز درست نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حددو سے تجاوز کرنے والے کو اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ پر ظلم کرنے والا قرار دیا ہے اور ان کے لیے عذاب مہین کی وعید سنائی ہے۔ اسلام کایہ نظام جرم وسزا عہد رسالت اورعہد خلافت راشدہ میں بڑی کامیابی سے قائم رہا جس کے بڑے فوائد وبرکات تھے۔ عصر حاضر کے بعض سیکولرذہنیت کےحاملین نے اسلامی حدود کو وحشیانہ اور ظالمانہ سزائیں کہا ہے۔ (نعوذ باللہ من ذالک) اور بعض اسلام دشمنوں نےیہ کہا کہ اسلام کانظام جرم وسزا عہد رسالت وخلافت راشدہ کے بعد کبھی کسی ملک میں کامیبابی سے نہیں چل سکا۔ زیر نظر کتاب’’اسلام کا قانون عقوبات‘‘ شیخ الحدیث صلاح الدین حیدر لکھوی حفظہ اللہ کی کاوش ہے ۔فاضل مصنف نے اس کتاب میں اسلام نے جن کی جرائم کی سزائیں متعین کی ہیں ان پر قرآن وسنت اورفقہ اسلامی کی روشنی میں سیرحاصل بحث کی ہے جن میں جرائم الحدوداور جرائم القصاص شامل ہیں ، مر...
عالم انسانیت آج اکیسویں صدی کا جشن منانے میں مصروف ہے جب کہ انسانیت منہ چھپائے ماری ماری پھر رہی ہے۔ روئے زمین کا کوئی خطہ اسے پناہ دینے پر آمادہ نہیں۔ ہر طرف قتل وغارت‘ فتنہ وفساد اور وجل وفریب کے طوفان پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ امن‘ چین اور سکون نام کی کوئی چیز انسانی دنیا میں نظر نہیں آ رہی۔ عقل انسانی کے تراشیدہ قوانین اور اصول حیات انسان کی اجڑی بستیوں کو آباد کرنے سے قاصر ہیں۔ بے خدا ازموں اور بے روح نظریات کے علمبردار ہمارے قصر حیات کے دکھ درد دور کرنے سے عاجز ہیں۔ امت مسلمہ جسے اللہ عزوجل نے بہترین امت کے لقب سے نوازا تاکہ وہ اسلام کے قوانین کو روئے زمین پر نافد کرکے امن وسکون کا گہوارا بنائیں وہ امت خود اندھیروں میں بھٹک رہی ہے۔زیرِ تبصرہ کتاب میں انہی تعزیرات اسلامیہ کو بیان کیا گیا ہےاور یہ کتاب اصلاًعربی زبان میں ہے جس کا عنوان’العقوبات فی الاسلام‘ تھا جسے طارق اکیڈمی فیصل آباد نے اردو زبان میں ٹرانسلیٹ کیا۔ ترجمہ نہایت عمدہ اور سلیس ہے۔ اس میں حدود وتعزیرات کی تعریف سے لے کر تمام تعزیزات وحدود کو کت...
اسلامی حکومت میں اسلامی حدود کا نفاذ نہ تو کسی حکمران کی صوابدید پر ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی حکمران انہیں سیاسی انتقام کا ذریعہ بنا سکتا ہے۔یہ حدود تو اس رب ذوالجلال والاکرام نے عائد کی ہیں جو اپنے بندوں پر ساری کائنات میں سب سے زیادہ مہربان ہے۔ان حدود کے نفاذ کا بڑا مقصد اسلامی حکومت میں بسنے والے ہر فرد کی عزت وآبرو اور جان ومال کا تحفظ اور انسانیت کی تکریم ہے نہ کہ توہین۔پھر یہ کہ یہ حدود اندھا دھند نافذ نہیں کر دی جاتیں بلکہ ملزم پر فرد جرم عائد کرنے کے لئے شریعت اسلامیہ میں کئی شرائط،لوازم،حد درجہ احتیاط اور کڑا معیار شہادت مقرر ہے۔اسلامی حدود کے نفاذ کا یہ مطلب نہیں کہ ملک بھر میں سب کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے جائیں گے اور بدکاری کے معمولی شبے پر لوگوں کو سنگسار کر دیا جائے گا۔یہ محض مغرب زدہ لوگوں کا پروپیگنڈا اور اسلام دشمنی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " اسلامی حدود اور ان کا فلسفہ مع اسلام کا نظام احتساب " دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری لاہور کے ریسرچ ایڈ وائزر مولانا سید محمد متین ہاشمی صاحب کی تصنیف ہے،جس میں انہوں نے قوانین مغرب سے متاثر ا...
اسلامی حکومت میں اسلامی حدود کا نفاذ نہ تو کسی حکمران کی صوابدید پر ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی حکمران انہیں سیاسی انتقام کا ذریعہ بنا سکتا ہے۔یہ حدود تو اس رب ذوالجلال والاکرام نے عائد کی ہیں جو اپنے بندوں پر ساری کائنات میں سب سے زیادہ مہربان ہے۔ان حدود کے نفاذ کا بڑا مقصد اسلامی حکومت میں بسنے والے ہر فرد کی عزت وآبرو اور جان ومال کا تحفظ اور انسانیت کی تکریم ہے نہ کہ توہین۔پھر یہ کہ یہ حدود اندھا دھند نافذ نہیں کر دی جاتیں بلکہ ملزم پر فرد جرم عائد کرنے کے لئے شریعت اسلامیہ میں کئی شرائط،لوازم،حد درجہ احتیاط اور کڑا معیار شہادت مقرر ہے۔اسلامی حدود کے نفاذ کا یہ مطلب نہیں کہ ملک بھر میں سب کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے جائیں گے اور بدکاری کے معمولی شبے پر لوگوں کو سنگسار کر دیا جائے گا۔یہ محض مغرب زدہ لوگوں کا پروپیگنڈا اور اسلام دشمنی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " اسلامی حدود اور ان کا فلسفہ مع اسلام کا نظام احتساب " دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری لاہور کے ریسرچ ایڈ وائزر مولانا سید محمد متین ہاشمی صاحب کی تصنیف ہے،جس میں انہوں نے قوانین مغرب سے متاثر ا...
اسلام شریعت میں قصاص سے مراد برابر بدلہ ہے۔ یعنی جان کے بدلے جان، مال کے بدلے مال، آنکھ کے بدلے آنکھ، دانت کے بدلے دانت۔ یعنی جیسا کوئی کسی پر جرم کرے اسے ویسی ہی سزا دی جائے۔اور اسلام نے انسانی جان کو جو احترام دیا ہے وہ سورۃ مائدۃ کی اس آیت کریمہ سے ہی واضح ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا(المائدۃ:32) اسلام کا عطا کردہ نظام ِقصاص ودیت دیگر قوانینِ عالم کے مقابلے میں نہایت سیدھا سادہ ہے۔مثلاً قصاص لینا امام یا حاکم کا فرض ہے بشرطیکہ اولیائے مقتول قصاص کے طالب ہوں۔قاتل کو بھی بلاعذر تسلیم نفس کردینا چاہیے کیونکہ یہ حق العبد ہے۔ اور تیسری بات یہ کہ مقدمے کافیصلہ کرتے وقت ازروئے قرآن حاکم پر یہ واجب ہے کہ وہ فریقین کےمابین کامل تسویہ برتے ۔اسلام سے قبل قصاص کے معاملے میں بہت زیادتی کی جاتی تھی یعنی بعض معاملات میں قصاص میں قتل کر کے او ربعض میں دیت لےکر چھوڑ دیا جاتا تھا اوراس کا کوئی ضابطہ نہ تھا۔ کبھی ایک آدم...
انکار رجم ایک فکری گمراہی کے نام سے زیر تبصرہ کتاب ڈاکٹر ابو عدنان سہیل (اصل نام افتخار احمد ) نے مسئلہ رجم کے اثبات کے لیے منکرین رجم کے علمبردار عنایت اللہ سبحانی کے جواب میں تحریر کی –عنایت اللہ سبحانی نے حقیقت رجم نامی کتاب لکھ کر مسئلہ رجم جوکہ امت مسلمہ کا اجماعی مسئلہ ہے اس کوکمزور کرنے کی کوشش کی جس پر ڈاکٹرابو عدنان سہیل نے انکار رجم ایک فکری گمراہی کے نام سے اس کتاب کا جواب دیا ہے-مصنف نے عنایت اللہ سبحانی کے دلائل کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کا سنجیدہ انداز میں علمی محاکمہ کرتے ہوئے قرآن وسنت کے دلائل اور صحابہ کرام کے عمل سے شادی شدہ زانی کی سزا رجم کوثابت کیا ہے-اور اسی طریقے سے رجم کی سزا کے منکرین جو کہ باطل تاویلات کا سہارا لیتے ہیں ان کی علمی خیانتوں کے بیان کے ساتھ ساتھ قرآن وسنت کی تعلیمات کے حقائق اور ان کی حکمتوں پر سیر حاصل بحث کی ہے-
حدوداللہ سے مراد وہ امور ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے حلت و حرمت بیان کردی ہے اور اس بیان کے بعد اللہ کے احکام اور ممانعتوں سے تجاوز درست نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حددو سے تجاوز کرنے والے کو اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ پر ظلم کرنے والا قرار دیا ہے اور ان کے لیے عذاب مہین کی وعید سنائی ہے۔ اسلام کایہ نظام جرم وسزا عہد رسالت اورعہد خلافت راشدہ میں بڑی کامیابی سے قائم رہا جس کے بڑے فوائد وبرکات تھے۔ عصر حاضر کے بعض سیکولرذہنیت کےحاملین نے اسلامی حدود کو وحشیانہ اور ظالمانہ سزائیں کہا ہے۔ (نعوذ باللہ من ذالک) اور بعض اسلام دشمنوں نےیہ کہا کہ اسلام کانظام جرم وسزا عہد رسالت وخلافت راشدہ کے بعد کبھی کسی ملک میں کامیبابی سے نہیں چل سکا۔ زیر تبصرہ کتا ب ’’تاریخ نفاذ حدود‘‘ ڈاکٹر نور احمد شاہتاز کی تحقیقی کاوش ہے فاضل مصنف نے اس کتاب میں تاریخی حولوں سے ثابت کیا ہے۔ کہ یہ نظام گزشتہ چودہ صدیوں میں ہر ملک وہر خطہ اسلامی میں نہایت کامیابی سے نافذ رہا اور اس کی برکات سے طویل عرصہ تک نسل انسانی نے استفادہ کیا۔ نیز فاضل مصنف نے شرائع سابق...
تمام حدود اللہ رب العزت کی طرف سے عائد کردہ ہیں جو اپنے بندوں پر ساری کائنات میں سب سے زیادہ مہربان ہے۔ان حدود کے نفاذ کا سب سے بڑا مقصد اسلامی حکومت میں بسنے والے ہر فرد کی عزت وآبرو اور جان ومال کا تحفظ اور انسانیت کی تکریم ہے ۔پھر یہ کہ یہ حدود اندھا دھند نافذ نہیں کر دی جاتیں بلکہ ملزم پر فرد جرم عائد کرنے کے لئے شریعت اسلامیہ میں کئی شرائط،لوازم،حد درجہ احتیاط اور کڑا معیار شہادت مقرر ہے۔انہی حدود میں سے ایک حد ارتداد ہے۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ : «مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ»(بخاری:3017)"جو اپنا دین(اسلام) بدل لے اسے قتل کردو۔"اور تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مرتد کی سزا قتل ہے۔لیکن دشمنان اسلام ہر وقت اسلام کی مقرر کردہ ان حدود پر شبہات واعتراضات کی بوچھاڑ جاری رکھتے ہیں اور عامۃ الناس کے قلوب واذہان میں اسلام کے خلاف شکوک پیدا کرتے رہتے ہیں۔انہی مخالفین اور اسلامی حدود سے ناآشنا لوگوں میں سے ایک سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق قاضی جناب شیخ ایس اے رحمان ہیں ،جنہوں نے ملت اسلامیہ کے سواد ا...
اسلام نے اپنے اصولِ حکمرانی میں عدل وانصاف کو بے پناہ اہمیت دی ہے۔ یہ ایسا الٰہی نظام حیات ہے جس کامزاج انسانوں کے خود ساختہ رائج الوقت قوانین سے اس لحاظ سے بھی مختلف ہے کہ یہ تمام انسانی قوانین سے ممتازاور ہردو ر،ہر زمانے کےتقاضے پورے کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد اہل پاکستان کی مسلسل یہ خواہش اورکوشش رہی ہے کہ اسلامی قوانین کا نفاذ عمل میں آئے۔بالخصوص جنرل ضاء الحق دور حکومت میں قوانین اسلام کے نفاذ کی کوششیں قابل ذکر ہیں ۔حدود آرڈی ننس نافذ کیا گیا اور وفاقی شرعی عدالت شرعی نقظۂ نظر سے مقدمات کی سماعت بھی کرتی رہی ۔ زیر نظر کتاب ’’ حدود وتعزیرات ‘‘ ادارہ تحقیقات اسلامی کے سکالرز کی مرتب شد ہے ۔ادارہ تحقیقات اسلامی نے حدود وتعزیرات کے متعلق فقہ اسلامی کی مستند کتب سےمنتخب ابواب کا ترجمہ کروا کراسے مرتب کروا کرشائع کیا۔ اس کتاب میں فقہ حنفی کے علاوہ اہل سنت کے باقی تین فقہی بھی ذکر کیے گیے ہیں تاکہ ماہرین قا...
اسلام نے اپنے اصولِ حکمرانی میں عدل وانصاف کو بے پناہ اہمیت دی ہے۔ یہ ایسا الٰہی نظام حیات ہے جس کامزاج انسانوں کے خود ساختہ رائج الوقت قوانین سے اس لحاظ سے بھی مختلف ہے کہ یہ تمام انسانی قوانین سے ممتازاور ہردو ر،ہر زمانے کےتقاضے پورے کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد اہل پاکستان کی مسلسل یہ خواہش اورکوشش رہی ہے کہ اسلامی قوانین کا نفاذ عمل میں آئے۔بالخصوص جنرل ضاء الحق دور حکومت میں قوانین اسلام کے نفاذ کی کوششیں قابل ذکر ہیں ۔حدود آرڈی ننس نافذ کیا گیا اور وفاقی شرعی عدالت شرعی نقظۂ نظر سے مقدمات کی سماعت بھی کرتی رہی ۔ زیر نظر کتاب ’’ حدود وتعزیرات ‘‘ ادارہ تحقیقات اسلامی کے سکالرز کی مرتب شد ہے ۔ادارہ تحقیقات اسلامی نے حدود وتعزیرات کے متعلق فقہ اسلامی کی مستند کتب سےمنتخب ابواب کا ترجمہ کروا کراسے مرتب کروا کرشائع کیا۔ اس کتاب میں فقہ حنفی کے علاوہ اہل سنت کے باقی تین فقہی بھی ذکر کیے گیے ہیں تاکہ ماہرین قا...
عصر حاضر میں مختلف ممالک میں جو قوانین رائج ہیں اس میں عقل انسانی کا عمل دخل زیادہ ہےاور یہ وقت کے تقاضوں،رسم ورواج اور روایتوں کے ما تحت ہوتے ہیں۔جبکہ یہ امر طے شدہ ہے کہ نہ انسانی عقل کامل ہے اور نہ ہی تمام رسوم ورواج مبنی بر حقائق ہوتے ہیں۔لہذا ہوتا یہ ہے کہ ان قوانین میں وقتا فوقتا ترامیم ہوتی رہتی ہیں ۔یہ اس امر کا بین ثبوت ہے کہ انسانی عقل سے تیار کردہ قانون ناقص ہے۔اس کے برعکس اللہ وحدہ لاشریک نے بنی نوع انسانی پر ایک عظیم احسان یہ بھی فرمایا ہے کہ اسے ایک مکمل اور تمام نقائص سے مبرا "قانون حیات" عطا فرما دیا ہے۔جو تاقیامت انسانیت کے راہنمائی اور ہدایت کا ذریعہ ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" حدود آرڈیننس اور تہذیبی تصادم "جامعہ بنوریہ عالمیہ کے استاذ محترم مولانا نذیر احمد خان کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے الہامی قانون حیات کے کچھ پہلوؤں کو بڑی خوبصورتی سے اس انداز میں اجاگر کیا ہے کہ جس سے مغرب کے دیمک زدہ آئین وقانون کی بوسیدگی کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔مولانا نذیر احمد خان(ایڈووکیٹ)ایک منجھے ہوئے قانون دان ہیں اور ایک کہنہ مشق استاذ کی...
عصر حاضر میں مختلف ممالک میں جو قوانین رائج ہیں اس میں عقل انسانی کا عمل دخل زیادہ ہےاور یہ وقت کے تقاضوں،رسم ورواج اور روایتوں کے ما تحت ہوتے ہیں۔جبکہ یہ امر طے شدہ ہے کہ نہ انسانی عقل کامل ہے اور نہ ہی تمام رسوم ورواج مبنی بر حقائق ہوتے ہیں۔لہذا ہوتا یہ ہے کہ ان قوانین میں وقتا فوقتا ترامیم ہوتی رہتی ہیں ۔یہ اس امر کا بین ثبوت ہے کہ انسانی عقل سے تیار کردہ قانون ناقص ہے۔اس کے برعکس اللہ وحدہ لاشریک نے بنی نوع انسانی پر ایک عظیم احسان یہ بھی فرمایا ہے کہ اسے ایک مکمل اور تمام نقائص سے مبرا "قانون حیات" عطا فرما دیا ہے۔جو تاقیامت انسانیت کے راہنمائی اور ہدایت کا ذریعہ ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" حدود آرڈیننس اور تہذیبی تصادم "جامعہ بنوریہ عالمیہ کے استاذ محترم مولانا نذیر احمد خان کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے الہامی قانون حیات کے کچھ پہلوؤں کو بڑی خوبصورتی سے اس انداز میں اجاگر کیا ہے کہ جس سے مغرب کے دیمک زدہ آئین وقانون کی بوسیدگی کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔مولانا نذیر احمد خان(ایڈووکیٹ)ایک منجھے ہوئے قانون دان ہیں اور ایک کہنہ مشق استاذ کی...
ساری کائنات کا خالق ،مالک اور رازق اللہ تعالی ہے۔وہی اقتدار اعلی کا بلا شرکت غیرے مالک اور انسانوں کا رب رحیم وکریم ہے۔انسانوں کے لئے قوانین حیات مقرر کرنا اسی کا اختیار کلی ہے۔اس کا قانون عدل بے گناہ افراد میں اطمینان خاطر پیدا کرتا ہے اور بڑے جرائم پر اس کی مقرر کردہ سخت سزائیں مجرموں کو ارتکاب جرم سے روکنے ،انہیں کیفر کردار تک پہنچانے اور دوسرے افراد کے لئے عبرت وموعظت کا سامان مہیا کرنے کا باعث ہیں۔اسلامی قانون عدل وانصاف کی ضمانت فراہم کرتا ہے،معاشرتی حقوق کا تحفظ کرتا ہے اور عزت وحرمت کی حفاظت کو یقینی بناتا ہے۔انسانوں اور رب کے باہمی تعلق کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کے قوانین کے نفاذ کے نتیجے میں زندگی میں وہ راحت،آرام اور آسائشیں پیدا ہوں جن کا قرآن حکیم میں بار بار وعدہ کیا گیا ہے۔جس نسل نے تخلیق پاکستان میں حصہ لیا ،اس کے لئے پاکستان میں اسلامی قوانین کا نفاذ ایک سہانا خوان اور جنت گم گشتہ کا حصول تھا۔،لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اسلامی قوانین کے نفاذ کے بعد معاشرے سے فیڈ بیک ملتی ہے وہ کسی طرح حوصلہ افزاء نہیں ہے۔اس لئے اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہ...
حدوداللہ سےمراد وہ امور ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے حلت وحرمت بیان کردی ہے اوراس بیان کے بعد اللہ کے احکام اورممانعتوں سے تجاوز درست نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حددو سے تجاوز کرنے والے کو اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ پر ظلم کرنے والا قرار دیا ہے اور ان کے لیے عذاب مہین کی وعید سنائی ہے ۔زیر نظر کتاب ’’حددو کی حکمت نفاذ اور تقاضے‘‘معروف مبلغہ ،مصلحہ،مصنفہ اور کالم نگار محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نے حد کی لغوی واصطلاحی تعریف، قوانین شرعیہ میں حدود کامفہوم، حدود آرڈیننس اور اسلامی جہوریہ پاکستان، حدود آرڈیننس اور خواتین،اسلامی حدودکے نفاذ کی برکات وغیرہ جیسے موضوعات کو آسان فہم انداز میں بیان کیا ہے ۔۔اللہ تعالیٰ ان کی تمام تدریسی وتصنیفی اور دعوتی خدمات کو قبول فرمائے اور اس کتاب کو عوام الناس کی اصلاح کا ذریعہ بنائے (آمین)محت...
اسلام میں شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا مقرر ہے جو کہ حد شرعی ہے ۔اس حد کو بدلنے کا کسی کو اختیار نہیں ۔اس کے نفاذ کو روکنے کے لیے سفارش کرنا بھی نا پسندیدہ ہے۔نبی کریم ﷺنے شادی شدہ زانی پر رجم یعنی سنگساری کی سزا نافذ فرمائی ہے۔کبھی مجرم کے اعتراف پر اور کبھی چار گواہوں کی شہادت دینے پر یہ حد جاری کی گئی۔ اب اس حد شرعی کو بدلنا یا منسوخ کرنا یا تعزیر میں تبدیلی کرنا در اصل اسلامی شریعت کو اپنی خواہشاتِ کے تابع کرنا ہے۔ زیر نظر کتاب’’ رجم کی شرعی حیثیت‘‘ حدر جم سے متعلق تین معروف اہل علم ( مفتی محمد شفیع،مفتی ولی حسن ٹونکی،مولانا محمد یوسف لدھیانوی) کےعلمی وتحقیقی مقالات کا مجموعہ ہے ۔ان مقالات میں انکار رجم کے اسباب وعلل پر روشنی ڈالتے ہوئے کتاب وسنت اور اجماع امت سےرجم کے دلائل جمع کرنے کےعلاوہ منکرین رجم کے قدیم وجدید شبہات سے بھی تعرض کیا گیا ہے ۔(م۔ا)
اسلام نے ہر اس ذریعہ اکتساب کو منع اور حرام قرار دیا ہے جس میں کسی کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ کمایاجائے۔انہی حرام ذرائع میں سے ایک نہایت قبیح ذریعہ اکتساب رشوت ہے، جو شریعت کی نظر میں انتہائی جرم ہے اور یہ جرم آج ہمارے معاشرے میں ناسور کی مانند پھیل چکا ہے، جس کا سد باب مسلمان معاشرے کے لئے ضروری ہے۔رشوت انسانی سوسائٹی کا وہ بد ترین مہلک مرض ہے جو سماج کی رگوں میں زہریلے خون کی طرح سرایت کر کے پورے نظام انسانیت کو کھوکلا اور تباہ کر دیتا ہے ۔ رشوت ظالم کو پناہ دیتی ہے ۔ اور مظلوم کو جبراً ظلم برداشت کرنے پر مجبور کرتی ہے ۔ رشوت کے ہی ذریعے گواہ ، وکیل اور حاکم سب حق کو ناحق اور ناحق کو حق ثابت کرتے ہیں ۔ رشوت قومی امانت میں سب سے بڑی خیانت ہے ۔اسلامی شریعت دنیا میں عدل و انصاف اور حق و رحمت کی داعی ہے ۔ اسلام نے روزِ اول سے ہی انسانی سماج کی اس مہلک بیماری کی جڑوں اور اس کے اندرونی اسباب پرسخت پابندی عائد کی ۔ اور اس کے انسداد کے لیے انتہائی مفید تدابیر اختیار کرنے کی تلقین فرمائی ۔ جن کی وجہ سے دنیا ان مہلک امراض سے نجات پا جائے...
رشوت انسانی سوسائٹی کا وہ بد ترین مہلک مرض ہے جو سماج کی رگوں میں زہریلے خون کی طرح سرایت کر کے پورے نظام انسانیت کو کھوکلا اور تباہ کر دیتا ہے ۔ رشوت ظالم کو پناہ دیتی ہے ۔ اور مظلوم کو جبرا ظلم برداشت کرنے پر مجبور کرتی ہے ۔ رشوت کے ہی ذریعے گواہ ، وکیل اور حاکم سب حق کو ناحق اور ناحق کو حق ثابت کرتے ہیں ۔ رشوت قومی امانت میں سب سے بڑی خیانت ہے ، جج ، گورنر، وزیر ، سیکرٹری ، عدالتی و دفتری نظام ، محکمہ پولیس اور قضاۃ یہ سب ہی قوم کی امانت ہیں ۔ جب تک یہ قانون ، اخلاق اور انصاف و عدل کے بے لاگ محافظ رہیں گے تب تک انسانیت عدل و انصاف اور رحمت سے مالال مال رہے گی ۔ اسلامی شریعت دنیا میں عدل و انصاف اور حق و رحمت کی داعی ہے ۔ اسلام نے روز اول سے ہی انسانی سماج کی اس مہلک بیماری کی جڑوں اور اس کے اندرونی اسباب پرسخت پابندی عائد کی ۔ اور اس کے انسداد کے لیے انتہائی مفید تدابیر اختیار کرنے کی تلقین فرمائی ۔ جن کی وجہ سے دنیا ان مہلک امراض سے نجات پا جائے ۔ زیر نظر کتاب اسی موضوع پر بطریق احسن روشنی ڈالتی ہے اور یہ کتاب درحقیقت امام محمد بن سعود یونیورسٹی میں...
زنا ایک سنگین اور قبیح ترین گناہ ہے۔دین اسلام جہاں زنا سے منع کرتا ہے وہیں اسباب زنا کے قریب جانے سے بھی روکتا ہے۔شرک کے بعد زنا کی نجاست و خباثت تمام معصیات سے بڑھ کر ہے۔ کیونکہ یہ گناہ ایسے ہیں جو دل کی قوت و وحدت کو پارہ پارہ کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں وارد ہونے والوں کی اکثریت مشرک ہوتی ہے۔اور جب یہ نجاست دل کو فساد سے بھر دیتی ہے تو یقینا اللہ طیب و پاک ذات سے انسان دور ہی ہوگا۔دین اسلام اس بدکاری کی ہر شکل سے روکتا اور اس کی مذمت کرتا ہے۔ سراً ہو یا جہراً، ہمیشہ کا ہو یا ایک لحظہ کا، آزادی سے ہو یا غلامی کے ساتھ، اپنوں سے ہو یا بیگانوں سے، حتی کہ اس کی طرف لے جانے والے اسباب المخادنہ والمصادقہ کی بھی نہیں اور نفی کر دی گئی ہے۔ مردوں کے لیے بھی اور عورتوں کے لیے بھی۔اور قرب قیامت اسی بدکاری کے ارتکاب کی شدت و کثرت کی وجہ سے سماوی عذاب اور لا علاج امراض مسلط کر دیئے جائیں گے۔ حتی کہ اس جرم اور دیگر اس کے ہم جنس جرائم کی وجہ سے لوگ خنزیر اور بندر کی شکل والے بنا دیئے جائیں گے۔ زیر تبصرہ کتاب "زنا کی سنگینی اور اس کے برے اثرات"علامہ...
شراب اور نشہ آور اشیاء معاشرتی آفت ہیں جو صحت کو خراب خاندان کو برباد،خاص وعام بجٹ کو تباہ اور قوت پیداوار کو کمزور کرڈالتی ہے۔ان کے استعمال کی تاریخ بھی کم وبیش اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی تہذیب کی تاریخ یہ اندازہ لگانا تو بہت مشکل ہے کہ انسان نے ام الخبائث کا استعمال کب شروع کیا اوراس کی نامسعود ایجاد کاسہرہ کس کے سر ہے ؟ تاہم اس برائی نے جتنی تیزی سے اور جتنی گہرائی تک اپنی جڑیں پھیلائی ہیں اس کا ندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ تمام عالمی مذاہب نے اس کے استعمال کو ممنوع قرار دیا ہے۔دین ِ اسلام میں اللہ تعالی نے شراب کے استعمال کو حرام قرار دیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نےاس کے استعمال کرنے والے پر حد مقرر کی ہے یہ سب اس مقصد کے تحت کیا گیا کہ مسکرات یعنی نشہ آور چیزوں سے پیدا شدہ خرابیوں کو روکا جائے ا ن کے مفاسد کی بیخ کنی اور ان کےمضمرات کا خاتمہ کیا جائے ۔کتب احادیث وفقہ میں حرمت شرات اور اس کے استعمال کرنے پر حدود وتعزیرات کی تفصیلات موجود ہیں ۔...
فوجداری ضابطہ یا ضابطہ تعزیرات ایک دستاویز ہے جس میں کسی مقام پر عمل در آمد ہونے والے تمام یا بیشتر جرائم کے قوانین کو یکجا کیا جاتا ہے۔ عموماً ایک ضابطہ تعزیرات جرائم کا احاطہ کرتا ہے جو عمل در آمد علاقے میں تسلیم کیے گئے ہیں، جرمانے جو ان جرائم پر عائد ہوتے ہیں اور کچھ مخصوص پہلوفوجداری ضابطے عمومًا دیوانی قوانین مشترک ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ ان سے قانونی نظاموں کی تشکیل پاتی ہے ان ضابطوں اور اصولوں پر جو نسبتاً مبہم ہیں اور انہیں معاملوں کی اساس پر رو بعمل لایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس وہ شاذ و نادر ہی عام قانون عمل درآمد کرنے والے علاقوں میں نافذ العمل ہوتے ہیں۔انگریزوں کی واپسی کے بعد، تعزیرات ہند پاکستان کو ورثے میں ملا۔ زیر تبصرہ کتا ب’’قانون فوجداری مع قصاص ودیت ‘‘ ملک ریاض خالد کی کاوش ہے ۔ انہوں نے اس کتا ب میں اس امر کی ہرممکن کوشش کی ہےکہ قانون کے طالب علموں او روکلاء صاحبان کو سلیس اردو میں اتنا موا د میسر ہوجائے جس سے کسی پہلو میں ان کی انکی تشنگی باقی نہ رہے ۔فاضل مصنف نے یہ کتاب صدر پاکست...
حدوداللہ سےمراد وہ امور ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے حلت وحرمت بیان کردی ہے اوراس بیان کے بعد اللہ کے احکام اورممانعتوں سے تجاوز درست نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حددو سے تجاوز کرنے والے کو اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ پر ظلم کرنے والا قرار دیا ہے اور ان کے لیے عذاب مہین کی وعید سنائی ہے ۔اسلام کایہ نظام جرم وسزا عہد رسالت اورعہد خلافت راشدہ میں بڑی کامیابی سے قائم رہا جس کے بڑے فوائد وبرکات تھے ۔ اسلامی حکومت میں اسلامی حدود کا نفاذ نہ تو کسی حکمران کی صوابدید پر ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی حکمران انہیں سیاسی انتقام کا ذریعہ بنا سکتا ہے۔یہ حدود تو اس رب ذوالجلال والاکرام نے عائد کی ہیں جو اپنے بندوں پر ساری کائنات میں سب سے زیادہ مہربان ہے۔ان حدود کے نفاذ کا بڑا مقصد اسلامی حکومت میں بسنے والے ہر فرد کی عزت وآبرو اور جان ومال کا تحفظ اور انسانیت کی تکریم ہے نہ کہ توہین۔پھر یہ کہ یہ حدود اندھا دھند نافذ نہیں کر دی جاتیں بلکہ ملزم پر فرد جرم عائد کرنے کے لئ...
قتل اور خودکشی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ دونوں فعل حرام ہیں۔ اِن کا مرتکب اللہ تعالیٰ کا نافرمان اور جہنمی ہے۔ درحقیقت انسان کا اپنا جسم اور زندگی اس کی ذاتی ملکیت اور کسبی نہیں بلکہ اﷲ کی عطا کردہ امانت ہے۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی ایسی عظیم نعمت ہے جو بقیہ تمام نعمتوں کے لیے اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی لیے اسلام نے جسم و جان کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے تمام افرادِ معاشرہ کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ وہ بہرصورت زندگی کی حفاظت کریں۔ اسلام نے ان اسباب اور موانعات کے تدارک پر مبنی تعلیمات بھی اسی لیے دی ہیں تاکہ انسانی زندگی پوری حفاظت و توانائی کے ساتھ کارخانہِ قدرت کے لیے کار آمد رہے۔ یہی وجہ ہے اسلام نے کسی کو قتل کرنے اور خودکشی (suicide) کر کے اپنے آپ کو قتل کرنے کے عمل کو حرام قرار دیا ہے۔ اسلام کسی انسان کو خود اپنی جان تلف کرنے کی ہرگزاجازت نہیں دیتا۔ زندگی اور موت کا مالکِ حقیقی اﷲ تعالیٰ ہے۔ جس طرح کسی دوسرے شخص کو موت کے گھاٹ اتارنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے، اُسی طرح اپنی زندگی کو ختم کرنا یا اسے بلاوجہ تلف...