کتب خانوں کی تاریخ چار ہزار سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔کتب خانہ یا دارُالکُتُب یا مکتبہ (Library)، ایک ایسی جگہ یا مقام جہاں اُن لوگوں کو پڑھنے کے لیے کتابیں مہیّا کی جاتی ہیں جو لوگ (مالی یا دوسری وجوہات کی بنا پر) کتابیں خریدنے سے قاصر ہوتے ہیں۔جدید درالکتب میں کوئی بھی شخص ہر قسم کی معلومات تک کسی بھی شکل و ذریعہ سے بے روک رَسائی حاصل کر سکتا ہے۔ مع معلومات کے، یہ دارالکتب ماہرین یعنی کِتاب داروں کی خدمات بھی مہیا کرتی ہیں جو معلومات کو ڈھونڈنے اور اُن کو منظّم کرنے میں تجربہ کار ہوتے ہیں۔کسی بھی تعلیم یافتہ معاشرے میں لائبریری اور قارئین کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔افرادکی تربیت اور ترقی میں لائبریریاں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ان کی موجودگی اور عدم موجودگی کسی بھی آبادی کے تہذیبی رجحانات اور ترجیحات کی عکاسی کرتی ہیں۔دنیا بھر میں تاریخی کتب خانے موجود ہیں جوآج بھی مرجع کی حیثیت رکھتے ہیں ۔برصغیر پاک وہند کے میں بھی تاریخی حیثیت کے حامل کتب خانے موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب’’
کتب خانہ اسکندریہ کی بنیادبطلیموسی فرمانروا سوتر اول نے اسکندریہ کے مقام پر رکھی ۔ اس کے بیٹے فیلاڈلفس کی علم پروی اور کتابوں سے دلچسپی نے کتب خانہ اسکندریہ کوجلد ہی اس قابل بنا دیا کہ ایتھنز کی علمی وثقافتی مرکزیت وہاں سمٹ آئی۔ اصحاب علم وفضل دور دور سے اس علمی مرکز کی طرف جوق در جوق کھنچے چلے آتے تھے۔کتب خانہ اسکندریہ کا قیام بھی نینوا کے کتب خانہ کی طرح شاہی سرپرستی میں عمل میں آیا۔ یہ کتب خانہ ایک کثیر المقاصد عجا ئب گھر میں قائم کیا گیا تھا جو رصدگاہ، ادارہ علم الابدان، ادارہ نشر و اشاعت اور کتب خانہ کی عمارت پر مشتمل تھا۔ مورخین کے نزدیک اس علمی ادارے کو دنیا کی سب سے پہلی جامعہ یا سائنسی اکادمی ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔کتب خانہ اسکندریہ میں کتابوں کا ذخیرہ زیادہ تعداد میں پیپرس اور جھلی کے رول یا پلندوں پر مشتمل تھا۔اس کتب خانے میں کتابوں کی تعداد میں 5 لاکھ سے متجاوز تھی ۔ مسلمانوں پر ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا رہا ہے کہ اس کو مصرکی فتح کے وقت مسلمانوں نے نذرآتش کر دیاتھا جبکہ اس الزام کی تردید خود مستشرقین مثلاً ایڈورڈ گبن(Gibbon) اور...
کتب خانوں کی تاریخ چار ہزار سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔کتب خانہ یا دارُالکُتُب یا مکتبہ (Library)، ایک ایسی جگہ یا مقام جہاں اُن لوگوں کو پڑھنے کے لیے کتابیں مہیّا کی جاتی ہیں جو لوگ (مالی یا دوسری وجوہات کی بنا پر) کتابیں خریدنے سے قاصر ہوتے ہیں۔جدید درالکتب میں کوئی بھی شخص ہر قسم کی معلومات تک کسی بھی شکل و ذریعہ سے بے روک رَسائی حاصل کر سکتا ہے۔ مع معلومات کے، یہ دارالکتب ماہرین یعنی کِتاب داروں کی خدمات بھی مہیا کرتی ہیں جو معلومات کو ڈھونڈنے اور اُن کو منظّم کرنے میں تجربہ کار ہوتے ہیں۔کسی بھی تعلیم یافتہ معاشرے میں لائبریری اور قارئین کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔افرادکی تربیت اور ترقی میں لائبریریاں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ان کی موجودگی اور عدم موجودگی کسی بھی آبادی کے تہذیبی رجحانات اور ترجیحات کی عکاسی کرتی ہیں۔دنیا بھر میں تاریخی کتب خانے موجود ہیں جوآج بھی مرجع کی حیثیت رکھتے ہیں ۔برصغیر پاک وہند کے میں بھی تاریخی حیثیت کے حامل کتب خانے موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب’’