مارشل لا کے اٹھنے کے بعد نئی حکومت کے لئے سب سے زیادہ اہم کاموں میں سے ایک نئے آئین کا مسودہ تیار کرنا تھا.1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد 1972ء کو 1970ء کے انتخابات کی بنیاد پر اسمبلی بنائی گئی۔ ایک کمیٹی مختلف سیاسی جماعتوں کے کراس سیکشن سے قائم کی گئی۔ اس کمیٹی کا مقصد ملک میں ایک آئین بنانا تھا جس پر تمام سیاسی پارٹیاں متفق ہوں۔ کمیٹی کے اندر ایک اختلاف یہ تھا کہ آیا کہ ملک میں پارلیمانی اقتدار کا نظام ہونا چاہیے یا صدارتی نظام۔ اس کے علاوہ صوبائی خود مختاری کے معاملے پر مختلف خیالات تھے۔ آٹھ ماہ آئینی کمیٹی نے اپنی رپورٹ تیار کرنے میں صرف کیے، بالآخر 10 اپریل 1973ء کو اس نے آئین کے متعلق اپنی رپورٹ پیش کی۔ وفاقی اسمبلی میں اکثریت یعنی 135 مثبت ووٹوں کے ساتھ اسے منظور کر لیا گیا اور 14 اگست 1973ء کو یہ آئین پاکستان میں نافذ کر دیا گیا۔اسی دستور ؍آئین کو پاکستان کا دستور اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین مجریہ 1973ء بھی کہتے ہیں۔اس آئین کے انگریزی اردو میں کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان 1973ء‘‘ دستور اسلام...
قیامِ پاکستان تقسیم ہند 14؍اگست 1947ء کو آزادی کے وقت دونوں جانب جو ہندو مسلم فسادات ہوئے اس میں لاکھوں انسان مارے گئے اور لاکھوں گھر برباد ہوئے ۔دونوں طرف سے جو نقل مکانی ہوئی اس میں خاندان کے خاندان کے بے گھر ہوئے اور یہ اجڑے ہوئے لوگ ہندوستان کی طرف سےپاکستان اور پاکستان کی طرف سے سے ہندوستان گئے۔ان میں سب سے زیادہ مظلوم طبقہ عورتوں کا تھا۔ زیر نظر کتاب ’’آوازیں جو سنائی نہیں دیتی‘‘ اروشنی بٹالیہ کی انگریزی تصنیف THE OTHER SIDE OF SILENCE کا اردو ترجمہ ہے ۔مصنفہ نے اس کتاب میں ان اجڑی ہو ئی عورتوں پر کیا بیتی؟ کے متعلق حقیقی واقعات کو درج کیا ہے ۔مصنفہ نے گھر گھر جاکر ان عورتوں سے بات چیت کی جو اپنے خاندانوں سے بچھڑ کر اب نئے گھر میں زندگی گزار رہی ہیں۔یہ کتاب آزادی کے وقت بچھڑ جانے والی عورتوں کی کہانیوں کے متعلق ایک مستند کتاب ہے ۔(م۔ا)
1973ء کا آئین، پاکستان کی ایک ایسی دستاویز ہے جو قومی وحدت، مسلکی استحکام اور ملی وقار کی علامت ہے،1973ء کا آئین اگرچہ اسلامی ہے لیکن عملی طور پر اس کا نفاذ نہ ہونے کے برابر ہے؛ کیونکہ اس کی اہم ترین اسلامی شقوں کی خلاف ورزی کی جاتی ہے یا پھر ان پر عمل انتہائی محدود شکل میں ہے۔ زیر نظر کتاب ’’ اسلام ،جمہوریت اور آئینِ پاکستان‘‘پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سڈڈیز کے زیر اہتمام اسلام آباد، لاہور ،کراچی میں آئین پاکستان اور جمہوریت کے عنوان پر علماء کرام کے مکالموں کی اہم مباحث پر مشتمل ہے۔ کتاب کے آخر میں علمائے کرام اور مذہبی سکالرز نے جن امور پر اتفاق کیا ان کو سفارشات کی صورت میں پیش کیا ہے ۔ جناب سجاد اظہر صاحب نے ان مکالمات کو مرتب کیا ہے۔(م۔ا)
اسلامی نظام حیات کی پوری عمارت دو باتوں پر قائم ہے عبادات اور معاملات،جنھیں دوسرے الفاظ میں ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد سے تعبیر کرتے ہیں۔اسلام معاملات کو درست رکھنے کی خاطر اپنے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنی حکومت قائم کرنے پر زور دیتا ہے۔اسلام ایک ایسی فلاحی مملکت کا عملی خاکہ پیش کرتا ہے جو لوگوں کی بنیادی ضروریات کی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔اس میں نہ طبقات ہیں اور نہ طبقاتی کشمکش ہوتی ہے، اس میں وسائل رزق سب کے لئے برابر میسر ہوتے ہیں۔ زیرِ تبصرہ کتاب ’’ بالشویزم اور اِسلام‘‘الحاج حضرت مولانا شاہ محمد عبدالحامد صاحب قادری معینی بدایوانی نے اپنے دور میں جو نئے مسائل اور چیلنجز درپیش تھے ۔ اُن سے وہ بطریقِ احسن سرخرو ہوئے ۔ زیرِ نظر رسالہ جس دور میں قلمبند ہوا وہ زمانہ اسلامی ہند کی تحریکِ آزادی کا اہم ترین دور ہے۔اس زمانہ میں مسلمانوں کو منظم و متحد کرنے کے لئے مسلمانانِ برعظیم پاک و ہند میں ملّی و سیاسی شعور بیدار کرنے کی اشد ضرورت تھی ۔جس کے نتیجے میں مصنف ہذا نے بڑی کاوش اور محنت سے یہ کتاب لکھی۔جس میں بالشویزم کے نظام...
نظریہ پاکستان سے مراد یہ تصور ہے کہ متحدہ ہندوستان کے مسلمان، ہندوؤں، سکھوں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں سے ہر لحاظ سے مختلف اور منفرد ہیں ہندوستانی مسلمانوں کی صحیح اساس دین اسلام ہے اور دوسرے سب مذاہب سے بالکل مختلف ہے، مسلمانوں کا طریق عبادت کلچر اور روایات ہندوؤں کے طریق عبادت، کلچر اور روایات سے بالکل مختلف ہے۔ اسی نظریہ کو دو قومی نظریہ بھی کہتے ہیں جس کی بنیاد پر 14 اگست 1947ء کو پاکستان وجود میں آیا۔پاکستان کی تاریخ پر لکھی ہوئی کتابوں میں عموماً منفی نقطۂ نظر پایا جاتا ہے ۔ حالانکہ مسلمانان ہند وپاکستان کی عظیم تاریخ ساز جدو جہدکو محض منفی رد عمل بتانا ان کے ساتھ ناانصافی ہے ۔
زیر نظر کتاب ’’ تاریخ نظریہ پاکستان ‘‘ محترم جناب پروفیسر سید محمد سلیم کی کاوش ہے فاضل مصنف نے اس کتاب میں مطالعہ پاکستان کےلیے مثبت بنیادوں کو نمایاں کیا ہے مزیدبرآں پاکستان کی جدوجہد کو ملت اسلامیہ کی عمومی تاریخ سےمربوط انداز میں پیش کیاگیا ہے ۔اکثر مصنفین اور محققین نظریہ پاکستان اور تحریک پاکستان کا فہم حاصل کرنےمیں ناکام رہے ۔تحریک پاکستان ک...
تحریک پاکستان اصل میں مسلمانوں کے قومی تشخص اور مذہبی ثقافت کے تحفظ کی وہ تاریخی جدو جہد تھی جس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ اور بحیثیت قوم ان کی شناخت کو منوانا تھا ۔ جس کے لیے علیحدہ مملکت کا قیام از حد ضروری تھا ۔یوں تو تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز 23 مارچ 1940ء کے جلسے کو قرار دیا جا سکتا ہے مگر اس کی اصل شروعات تاریخ کے اس موڑ سے ہوتی ہیں جب مسلمانان ہند نے ہندو نواز تنظیم کانگریس سے اپنی راہیں جدا کر لی تھیں ۔1930 ءمیں علامہ اقبال نے الہ آباد میں مسلم لیگ کے اکیسیوں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے باضابطہ طور پر بر صغیر کے شمال مغبر میں جداگانہ مسلم ریاست کا تصور پیش کر دیا ۔ چودھری رحمت علی نے اسی تصور کو 1933 میں پاکستان کا نام دیا ۔ سندھ مسلم لیگ نے 1938 میں اپنے سالانہ اجلاس میں بر صغیر کی تقسیم کے حق میں قرار داد پاس کر لی ۔ علاوہ ازیں قائد اعظم بھی 1930 میں علیحدہ مسلم مملکت کے قیام کی جدو جہد کا فیصلہ کر چکے تھے ۔1940 تک قائد اعظم نے رفتہ رفتہ قوم کو ذہنی طور پر تیار کر لیا ۔23مارچ 1940 کے لاہور میں منٹو پارک میں مسلمانان ہند کا ایک...
تحریک پاکستان اصل میں مسلمانوں کے قومی تشخص اور مذہبی ثقافت کے تحفظ کی وہ تاریخی جدو جہد تھی جس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ اور بحیثیت قوم ان کی شناخت کو منوانا تھا ۔ جس کے لیے علیحدہ مملکت کا قیام از حد ضروری تھا ۔یوں تو تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز 23 مارچ 1940ء کے جلسے کو قرار دیا جا سکتا ہے مگر اس کی اصل شروعات تاریخ کے اس موڑ سے ہوتی ہیں جب مسلمانان ہند نے ہندو نواز تنظیم کانگریس سے اپنی راہیں جدا کر لی تھیں ۔1930 ءمیں علامہ اقبال نے الہ آباد میں مسلم لیگ کے اکیسیوں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے باضابطہ طور پر بر صغیر کے شمال مغبر میں جداگانہ مسلم ریاست کا تصور پیش کر دیا ۔ چودھری رحمت علی نے اسی تصور کو 1933 میں پاکستان کا نام دیا ۔ سندھ مسلم لیگ نے 1938 میں اپنے سالانہ اجلاس میں بر صغیر کی تقسیم کے حق میں قرار داد پاس کر لی ۔ علاوہ ازیں قائد اعظم بھی 1930 میں علیحدہ مسلم مملکت کے قیام کی جدو جہد کا فیصلہ کر چکے تھے ۔1940 تک قائد اعظم نے رفتہ رفتہ قوم کو ذہنی طور پر تیار کر لیا ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ تحریک آزادی 1857ء سےبھی پہلے شروع ہو چ...
تحریک پاکستان کئی پہلوؤں سے بیسویں صدی کی ایک منفرد اور ممتاز تحریک تھی۔ اس کا سب سے نمایاں پہلو تو یہ تھا کہ وہ خطۂ ارض پر ایک نئی اور آزاد مملکت کے وجود میں لانے پر منتج ہوئ اور اس طرح اس نے نقشۂ عالم پر ایسا پائدار نقش قائم کیا جو اس کے مقابلے میں کم تحریکوں کو حاصل ہو سکا۔اس تحریک کا دوسرا امتیازی پہلو یہ ہے کہ یہ آغاز سے لے کر انجام تک خالصتاً جمہوری خطوط پر چلتی رہی۔ اس کے دور میں جمہوری خطوط پر کام کرنے والی کچھ دوسری تحریکیں بھی تھیں لیکن ان کے پیش نظر صدیوں بلکہ ہزار ہا سال پہلے سے قائم شدہ ایک ملک کے لیے آزادی حاصل کرنا تھی جب کہ تحریک پاکستان کا نصب العین ایک ملک نہیں ایک قوم کے لی آزادی حاصل کرنا اور اسے ایک علیحدہ اور نیا ملک لے کر دینا تھا۔قیام پاکستان سے پہلے ملک جنگیں لڑ کے اور عسکری فتوحات قائم کر کے حاصل کیے جاتے تھے لیکن تحریک پاکستان جس ملک کے قیام پر منتج ہوئی وہ خالصتاً اس علاقے اور برصغیر کے دوسرے مسلمانوں کا کھلا جمہوری مطالبہ تھا۔اس کی خاطر انہوں نے سر عام جدو جہد کی۔ کھلے بندوں ایک زبردست تحریک برپا کی۔ جھیلیں کاٹیں اور دوسر...
14 اگست 1947ء وہ تاریخ ساز دن ہے جب برصغیر کے مسلمانوں کا ایک علیحدہ اسلامی ریاست کا خواب حقیقت سے شناسا ہوا ور دنیا کے نقشے پر اپنے وقت کی سب سے بڑی مملکت معرض وجود میں آئی۔انسانی تاریخ میں ہجرت مدینہ کے بعد ہجرت پاکستان غالبا سب سے بڑی ہجرت تھی، جس میں مسلمانوں نے ایک نظریہ اور مقصد کی خاطر بننے والی مملکت کے لئے اپنے آبائی گھر چھوڑے اور جان ومال اور عزتوں کی لازوال قربانیاں دیں۔پاکستان کی آئندہ تمام نسلیں اپنے ان اسلاف کی احسان مند اور مقروض رہیں گی جن کی مساعی اور بے پناہ قربانیوں کے نتیجہ میں پاکستان وجود میں آیا۔مسلمان ایک الگ مسلم قومیت کے حامل تھے۔اسی مسلم قومیت کے تصور نے ایک اسلامی مملکت پاکستان کی خواہش پیدا کی۔جب برصغیر کے مسلمان حصول پاکستان کے لئے جدوجہد کر رہے تھے تو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ان کے اغراض ومقاصد واضح اور اہداف متعین تھے۔قائدین وبانیان پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ ڈاکٹر محمد اقبال،نواب بہادر یار جنگ، علامہ شبیر احمد عثمانی، نواب زادہ لیاقت علی خان اور چوہدری رحمت علی وغیرہ نے متعدد مواقع پر پاکستان کے اسل...
" تحریک پاکستان اصل میں مسلمانوں کے قومی تشخص اور مذہبی ثقافت کے تحفظ کی وہ تاریخی جدو جہد تھی جس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ اور بحیثیت قوم ان کی شناخت کو منوانا تھا ۔ جس کے لیے علیحدہ مملکت کا قیام از حد ضروری تھا ۔یوں تو تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز 23 مارچ 1940 کے جلسے کو قرار دیا جا سکتا ہے مگر اس کی اصل شروعات تاریخ کے اس موڑ سے ہوتی ہے جب مسلمانان ہند نے ہندو نواز تنظیم کانگریس سے اپنی راہیں جدا کر لی تھی ۔ 1930 میں علامہ اقبال نے الہ آباد میں مسلم لیگ کے اکیسیوں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے باضابطہ طور پر بر صغیر کے شمال مغبر میں جداگانہ مسلم ریاست کا تصور پیش کر دیا ۔ چودھری رحمت علی نے اسی تصور کو 1933 میں پاکستان کا نام دیا ۔ سندھ مسلم لیگ نے 1938 میں اپنے سالانہ اجلاس میں بر صغیر کی تقسیم کے حق میں قرار داد پاس کر لی ۔ علاوہ ازیں قائد اعظم بھی 1930 میں علیحدہ مسلم مملکت کے قیام کی جدو جہد کا فیصلہ کر چکے تھے ۔1940 تک قائد اعظم نے رفتہ رفتہ قوم کو ذہنی طور پر تیار...
تحریک پاکستان اصل میں مسلمانوں کے قومی تشخص اور مذہبی ثقافت کے تحفظ کی وہ تاریخی جدو جہد تھی جس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ اور بحیثیت قوم ان کی شناخت کو منوانا تھا ۔ جس کے لیے علیحدہ مملکت کا قیام از حد ضروری تھا ۔یوں تو تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز 23 مارچ 1940 کے جلسے کو قرار دیا جا سکتا ہے مگر اس کی اصل شروعات تاریخ کے اس موڑ سے ہوتی ہے جب مسلمانان ہند نے ہندو نواز تنظیم کانگریس سے اپنی راہیں جدا کر لی تھی ۔ 1930 میں علامہ اقبال نے الہ آباد میں مسلم لیگ کے اکیسیوں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے باضابطہ طور پر بر صغیر کے شمال مغبر میں جداگانہ مسلم ریاست کا تصور پیش کر دیا ۔ چودھری رحمت علی نے اسی تصور کو 1933 میں پاکستان کا نام دیا ۔ سندھ مسلم لیگ نے 1938 میں اپنے سالانہ اجلاس میں بر صغیر کی تقسیم کے حق میں قرار داد پاس کر لی ۔ علاوہ ازیں قائد اعظم بھی 1930 میں علیحدہ مسلم مملکت کے قیام کی جدو جہد کا فیصلہ کر چکے تھے ۔1940 تک قائد اعظم نے رفتہ رفتہ قوم کو ذہنی طور پر تیار کر لیا ۔23مارچ 1940 کے لاہور میں منٹو پارک میں مسلمانان ہند کا ایک عظ...
مالا کنڈ ڈویژن میں صوفی محمد نے تحریک نفاذ شریعت محمدی کی بنیاد رکھی بعد ازاں صوفی محمد کے منظر عام سے ہٹ جانے کے بعد اس کے داماد فضل اللہ نے اس تحریک کوسنبھالا اور سوات میں اپنی ایک متوازی حکومت قائم کرلی جو 2009 کے فوجی آپریشن کے شروع ہونے سے قبل یہاں کی سیاہ و سفید کی مالک تھی ۔ مسلم خان اس تحریک کا ترجمان تھا جس کو ستمبر 2009 میں پاک فوج نے گرفتار کر لیا۔ اس تحریک کے خلاف ہونے والی فوج...
قوموں کی زندگی میں تاریخ کی اہمیت وہی ہے جو کہ ایک فرد کی زندگی میں اس کی یادداشت کی ہوتی ہے۔ جس طرح ایک فرد واحد کی سوچ، شخصیت، کردار اور نظریات پر سب سے بڑا اثر اس کی یادداشت کا ہوتا ہے اسی طرح ایک قوم کے مجموعی طرزعمل پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی چیز اس کی تاریخ ہوتی ہے ۔ کوئی بھی قوم اس وقت تک اپنی اصلاح نہیں کر سکتی جب تک وہ اپنے اسلاف کی تاریخ اور ان کی خدمات کو محفوظ نہ رکھے۔اسلامی تاریخ مسلمانوں کی روشن اور تابندہ مثالوں سے بھری پڑی ہے۔لیکن افسوس کہ آج کا مسلمان اپنی اس تاریخ سے کٹ چکا ہے۔اپنی بد اعمالیوں اور شریعت سے دوری کے سبب مسلمان آج پوری دنیا میں ذلیل ورسوا ہو رہے ہیں۔اور ہر میدان میں انہیں شکست وہزیمت کا سامنا ہے ۔آج 57 آزاد ممالک کی شکل میں قوت ،عددی اکثریت اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ذلت ،عاجزی اور درماندگی میں اسی مقام پر کھڑی ہے جہاں سوسال پہلے کھڑی تھی۔اس کا سب سے برا سبب مسلمانوں کا دین سے دور ہونا اور غیروں کے قریب ہونا ہے۔کافر ہمیں اس لئے مارتے ہیں کہ یہ مسلمان ہیں اور ہم اس لئے مار کھا ر...
تحریک پاکستان اس تحریک کو کہتے ہیں جو برطانوی ہند میں مسلمانوں نے ایک آزاد وطن کے لیے چلائی جس کے نتیجے میں پاکستان قائم ہوا۔تحریک پاکستان اصل میں مسلمانوں کے قومی تشخص اور مذہبی ثقافت کے تحفظ کی وہ تاریخی جدو جہد تھی جس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ اور بحیثیت قوم ان کی شناخت کو منوانا تھا ۔ جس کے لیے علیحدہ مملکت کا قیام از حد ضروری تھا ۔قیامِ پاکستان کا قیام اس طویل جدوجہد کا ثمر ہے جو مسلمانانِ برصغیر نے اپنے علیحدہ قومی تشخص کی حفاظت کے لیے شروع کی۔ زیر تبصرہ کتاب ’’مسلمانوں کی جدوجہد آزادی‘‘ ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب کی ان تقریروں کا مجموعہ ہے جو انہوں نے ریڈیو پاکستان ،کراچی سے ’’ تحریک پاکستان منزل بہ منزل ‘‘ کے عنوان سے سلسلہ وار 19 اکتوبر 1978ء سے 12 جو ن 1979ء تک پیش کیے ۔بعد ازاں ان تقریروں کو تحریر کر کے کتابی صورت میں مرتب کیا گیا ہے ۔ اس کتاب میں اسلامی مملکت پاکستان کے قیام کی جد...
کچھ لوگوں کے اصرار اور باہمی مشاورت کے بعد ہم نے قارئین کتاب و سنت ڈاٹ کے لیے عصری تعلیم سے متعلقہ نصابی کتابوں کو فراہم کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ زیر نظر کتاب ’مطالعہ پاکستان‘ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔ یہ کتاب ڈگری کلاسز کے لیے مرتب کی گئی ہے جس کے مصنفین محمد اکرم، عثمان شاہد، حافظ اشفاق احمد اور عبدالحئ ہیں۔ مطالعہ پاکستان سے متعلقہ سات ابواب بالتفصیل رقم کرنے کے بعد علامہ اقبال کے پچاس اشعار بمعہ تشریح پیش کیے گئے ہیں۔ ڈگری کلاسز کے مطالعہ پاکستان کے امتحان میں یہ اشعار خاصے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور نمبرز پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کتاب میں 20 کے قریب اہم سوالات کی طرف بھی اشارہ کر دیا گیا ہے۔ اخیر میں 2005ء سے لے کر 2011ء تک بورڈ کے سالانہ امتحانات میں آنے والے سوالات بھی لکھ دئیے گئے ہیں۔(ع۔م)
مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر انکا دور دورہ تھا۔ سلطنتِ مغلیہ کا بانی ظہیر الدین بابر تھا، جو تیمور خاندان کا ایک سردار تھا۔ ہندوستان سے پہلے وہ کابل کا حاکم تھا۔ 1526ء کو سلطنتِ دہلی کے حاکم ابراہیم لودھی کے خلاف مشہورِ زمانہ پانی پت جنگ میں بابر نے اپنی فوج سے دس گُنا طاقتور افواج سے جنگ لڑی اور انہیں مغلوب کر دیا کیونکہ بابر کے پاس بارود اور توپیں تھیں جبکہ ابراہیم لودھی کے پاس ہاتھی تھے جو توپ کی آواز سے بدک کر اپنی ہی فوجوں کو روند گئے۔ یوں ایک نئی سلطنت کا آغاز ہوا۔ اس وقت شمالی ہند میں مختلف آزاد حکومتیں رائج تھیں۔ علاوہ ازیں وہ آپس میں معرکہ آرا تھے۔ 1526ء میں دہلی اور آگرہ کی فتح کے بعد صرف چند ماہ میں بابر کے سب سے بڑے بیٹے ہمایوں نے...
برصغیر پاک و ہند میں کچھ ایسی شخصیات نے جنم لیا جو علم و ادب اور صحافت کے افق پر ایک قطبی ستارے کی طرح نمودار ہوئے اور دیر تک چھائے رہے۔ ان شخصیات میں سے مولانا ابو الکلام آزادؒ سرِ فہرست ہیں، مولانا کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازہ تھا۔ مولانا آزادؒ عربی، اردو، فارسی اور انگریزی کے عظیم سکالر تھے، آپ نہایت ہی زیرک اور بے باک انسان تھے۔ جب فرنگی حکومت نے ایک منصوبہ کے تحت تقسیم برصغیر کا پروگرام بنایا اور ان کا ارادہ تھا کہ مسلمان پسماندہ ہیں اس لیے ان کو چند ایک رعایتوں کے ساتھ اپنا آلہ کار بنا لیا جائے گا۔ مولانا آزادؒ نے جب برطانوی حکومت کی چالوں میں شدّت محسوس کی تو برصغیر کے مسلمانوں کو اس خطرناک چال سے بچانے کے لیے مولانا نے باقاعدہ کوششیں کیں۔ مولانا یہ چاہتے تھے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی نو(9) کروڑ سے زیادہ ہے اور وہ اپنی اس زبردست تعداد کے ساتھ ایسی مذہبی و معاشرتی صفات کے حامل ہیں کہ ہندوستان کی قومی و وطنی زندگی میں فیصلہ کن اثرات ڈال سکتے ہیں۔ مولانا کا یہ نظریہ تھا کہ اگر آج ہندوستان کے مسلمان ایک الگ ملک حاصل کر لیں گئے تو وہ فرن...
جدوجہد پاکستان ایک تاریخی باب ہے ۔جو کئی فصول پر مشتمل ہے۔عام طور پر اس تاریخی جدوجہد کا آغاز شاہ ولی اللہ کے حوالے سے بتایا جاتا ہے۔لیکن تاریخی طور پر یہ ثابت ہے کہ شاہ صاحب نے جس فکری و عملی تحریک کی اساس رکھی تھی وہ خالصتا اسلامی تھی۔ مثلا سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید نے پشاور او رخیبر پختون خوان میں ایک ایسی ریاست قائم کی جو حقیقی معنوں میں شاہ صاحب کے خواب کی تعبیر تھی۔جس میں صحیح معنوں میں اسلامی نظام کا قیام کیا گیا۔ لیکن گزشتہ سے پیوستہ صدی کے انتہائی اور گزشتہ صدی کے ابتدائی عرصے میں تحریک جدوجہد پاکستان کی قیادت ایک ایسے گروہ کے ہاتھ آئی جس کا تصور اسلام ،سلف کے تصور اسلام سے بوجوہ مختلف تھا۔چنانچہ تخلیق پاکستان کے بعد اس ملک کو ایسی پالیسیوں کے مطابق چلانے کی کوشش کی گئی جن کا قبلہ کعبے کی بجائے کوئی اور تھا۔عام طور پر یہ باور کرایا جاتا ہے کہ تخلیق پاکستان کے لیے ہونے والی کوششوں کے مرکزی کردار محمدعلی جناح اور اقبال ہیں ۔ یہ کتاب انہی دونوں شخصیتوں کے...
" تحریک پاکستان اصل میں مسلمانوں کے قومی تشخص اور مذہبی ثقافت کے تحفظ کی وہ تاریخی جدو جہد تھی جس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ اور بحیثیت قوم ان کی شناخت کو منوانا تھا ۔ جس کے لیے علیحدہ مملکت کا قیام از حد ضروری تھا ۔یوں تو تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز 23 مارچ 1940 کے جلسے کو قرار دیا جا سکتا ہے مگر اس کی اصل شروعات تاریخ کے اس موڑ سے ہوتی ہے جب مسلمانان ہند نے ہندو نواز تنظیم کانگریس سے اپنی راہیں جدا کر لی تھی ۔ 1930 میں علامہ اقبال نے الہ آباد میں مسلم لیگ کے اکیسیوں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے باضابطہ طور پر بر صغیر کے شمال مغبر میں جداگانہ مسلم ریاست کا تصور پیش کر دیا ۔ چودھری رحمت علی نے اسی تصور کو 1933 میں پاکستان کا نام دیا ۔ سندھ مسلم لیگ نے 1938 میں اپنے سالانہ اجلاس میں بر صغیر کی تقسیم کے حق میں قرار داد پاس کر لی ۔ علاوہ ازیں قائد اعظم بھی 1930 میں علیحدہ مسلم مملکت کے قیام کی جدو جہد کا فیصلہ کر چکے تھے ۔1940 تک قائد اعظم نے رفتہ رفتہ قوم کو ذہنی طور پر تیار کر لیا ۔23مارچ 1940 کے لاہور میں منٹو پارک میں مسلمانان ہند کا...
مسلمانوں کی کوشش سے برصغیر ہند کی تقسیم اور خود مختار اعتقادی دولت کی حیثیت سے پاکستان کا قیام ایسا واقعہ ہے کہ اس پر ہمیشہ گفتگو رہے گی کہ ساری دنیا کی مخالفت کے باوجود یہ کیسے ہو گیا۔ برصغیر پر انگریزوں کے تسلط کے ساتھ ہی مسلمان ایسی سخت سیاسی الجھن میں مبتلا ہونے کہ دنیا کے کسی حصے میں کوئی دوسری قوم نہیں ہوئی۔ وہ برصغیر میں‘ جسے بڑے اہتمام سے اور بڑی بدنیتی سے‘ ایک ملک کہا جاتا تھا‘ تنہا ایک قوم نہیں تھے بلکہ ہندو دوسری قوم تھے جن کی آبادی میں کثرت تھی‘ جنہوں نے مسلمانوں کی فیاضانہ حکومت میں سات سو برس دولت سمیٹی تھی اور اپنے توہمات اور تعصبات کو ترقی دینے کے لیے بالکل آزاد رہے تھے۔ وہ مسلمانوں کی مخالفت کے لیے کھل کر سامنے آگئی۔ انہوں نے ہندوستان پر انگریزوں کا تسلط قائم کرنے میں انگریزوں کا پورا ساتھ دیا۔زیرِ تبصرہ کتاب خاص تاریخ پاکستان کے حوالے سے ہے جس میں مصنف نے انگریزی مواد کو بھی اقتباسات کی شکل میں افادۂ عام کے لیے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے اور پاکستان کے وجود میں آنے کی تاریخ کو امت کے سالاروں کے کارناموں اور ان کی ان...
قوموں کے عروج و زوال کی داستان اس حقیقت پر شاہد ہے کہ قومی دفاع اور ملکی سلامتی سے غفلت برتنے والی اقوام با لآخر اپنی آزادی اور استقلال کو کھو دیتی ہیں اور اغیار کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ لی جاتی ہیں۔ پاکستان کا مسئلہ یہ رہا ہے کہ برصغیر کے جذبہ ایمانی سے سرشار مسلمانوں کی ایک بھرپور تحریک اور لازوال شہادتوں اور قربانیوں کے نتیجہ میں ہم جس عظیم ملک کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، پچھلے تقریباً پچاس(50) سالوں کے دوران اس کی بقاء اور سلامتی کے تقاضوں کو کما حقہ سمجھنے، ان کے حصول کے لیے مناسب پالیسیوں کی تشکیل اور پھر ہم ان پر خلوص نیت سے عمل پیرا ہونے میں مسلسل ناکام چلے آ رہے ہیں۔ بدلتے ہوئے عالمی حالات میں پاکستان کی سلامتی کو گوناگوں خطرات کاسامنا ہے۔ ایک طرف ہم بھارت کے جارحانہ عزائم کا نشانہ ہیں جس نے کبھی پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور دوسری طرف کرّاہ ارض پر اپنی بالادستی کے قیام کی خواہشمند مغربی اقوام کے خطرناک ارادے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کو"خطرہ" اور"دہشت گرد" بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اور یہ باور کرانے کی کوشش کی...
دنیا میں بہت سے ممالک ایسے ہوں گے جہاں صرف دو یا گنتی کی تین، چار سیاسی جماعتیں ہوں گی لیکن پاکستان میں ان جماعتوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔پاکستان ایک کثیر سیاسی جماعتیں رکھنے والا ملک ہے، جن کی تعداد اڑھائی سو کے قریب ہے۔ان میں سے کچھ مذہبی اور کچھ لسانی جماعتیں بھی ہیں اور بعض جماعتیں ایسی بھی ہیں جن کا نام کے سوا کوئی عملی وجود نہیں ہے۔ان میں سے ہر جماعت کا اپنا منشور اور آئین ہے جس کے مطابق وہ اپنی سیاسی زندگی گزار رہی ہے اور انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔پاکستان کی سب سے پہلی سیاسی جماعت مسلم لیگ تھی جس کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔اس کے بعد بے شمار جماعتیں وجود میں آتی گئیں۔ زیر تبصرہ کتاب" پاکستان کی سیاسی جماعتیں" محترم پروفیسر محمد عثمان اور مسعود اشعر صاحبان کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے پاکستان کی 16 بڑی سیاسی جماعتوں کے پروگرامز اور ان کے منشور کو بعینہ یہاں جمع کردیا ہے اور اس میں کسی قسم کا ردو بدل نہیں کیا تاکہ ہر کوئی ان جماعتوں کے منشور سے آگاہی حاصل کر سکے۔یہ کتاب سیاسی جماعتوں کے حوالے سے ایک مفید ترین کتاب...
بے آب و گیا ہ صحرائے چولستان جو کسی زمانے میں بین الاقوامی تجارتی گزر گاہ تھا اور تجارتی قافلوں کی حفاظت کے لئے دریائے ہاکڑا کے کنارے جیسلمیر کے بھٹی راجاﺅں کے دور حکمرانی 834ہجری میں تعمیر ہونے والا قلعہ ڈیراور جو اپنے اندر کئی صدیوں کے مختلف ادوار کی تاریخ سموئے ہوئے ہے۔ اس قلعہ کو نواب صادق محمد خاں اول نے والئی جیسلمیر راجہ راول رائے سنگھ سے فتح کیا جس وقت قلعہ ڈیراور عباسی خاندان کی ملکیت بنا تو عباسی حکمرانوں نے قلعہ کے تمام برج پختہ اینٹوں سے تعمیر کروا کر اس قلعہ کا ہر برج اپنے ڈیزائن میں دوسرے سے جدا ڈیزائن میں کیا ۔ قلعہ کے اندر شاہی محل ،اسلحہ خانہ ، فوج کی بیرکیں اور قید خانہ بھی بنایا گیا تھا ۔ قلعہ کے مشرقی جانب عباسی حکمرانو ں نے ایک محل بھی 2منزلہ تعمیر کرایاجہاں تاج پوشی کی رسم اد اکی جاتی تھی۔ اس وقت قلعہ اپنی شان و شوکت کے ساتھ موجود تھا ۔ ریاست بہاولپور کا پاکستان سے الحاق ہونے کے بعد اور والئی ریاست بہاولپورعباسیہ خاندان کے آخری فرمانروا نواب سر صادق محمد خاں خامس عباسی مرحوم کی وفا ت کے بعد چولستان کے وارثوں اور حکمرانوں کی عدم توجہی...
مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم ل...