امت مسلمہ میں شعور کی بیداری اور اسلام کے صحیح تصور کی عملی تصویر اجاگر کرنے کے لیے قرآن و سنت کی ترویج و اشاعت ایک لازمی امر ہے۔ اسی سلسلہ میں زیر تبصرہ کتاب وجود میں آئی ہے۔ جس میں نہایت واضح انداز میں امت مسلمہ کے زوال کے اسباب اور اس سے نکلنے کی راہیں متعین کی گئی ہیں۔ مؤلف نے اپنی علمی وسعت و ہمت کےمطابق اس دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا اور اصلاح کی سعی بلیغ کی ہے۔ پھر اس پر مستزاد یہ کہ فاضل نوجوان محترم طاہر نقاش صاحب نے اس کی مزید اصلاح کر کے کتاب کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔ کتاب کی افادیت میں اس اعتبار سے اضافہ ہو جاتا ہے کہ اس پر نظر ثانی مولانا مبشر احمد ربانی نے کی ہے۔ اب تک یہ کتاب نایاب تھی اگرچہ تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے شائع ہوتی رہی۔ ’دار الابلاغ‘ کے اسٹیج سے اسے کتاب میں بیان کردہ موضوع کے حساب سے ’امت محمدیہ زوال پذیر کیوں ہوئی‘ کے نام سے شائع کیا جا رہا ہے۔ جس پر ’دار الابلاغ‘ مبارکباد کا مستحق ہے۔ کتاب کی افادیت کو دیکھتے ہوئے ہم اسے قارئین کتاب و سنت ڈاٹ کام کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔(ع۔م)
 ...
جب نبی مکرمﷺ کا دنیا میں بعثت ہوئی اس وقت انسانیت پستی کی آخری حدوں سے بھی آخرتک پہنچ چکی تھی۔ شرک و بدعات، مظالم و عدم مساوات ان کی زندگی کا جزو لاینفک بن چکا تھا۔ لیکن رسول اللہﷺ نے ان کے عقائد و اخلاق اس طور سے سنوارے کہ کل کے راہزن آج کے راہبر بن چکےتھے۔ نبی کریمﷺ کی تشکیل کردہ اسلامی تہذیب نے دنیا کے تمام معاشروں پر نہایت گہرے اثرات ثبت کئے۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا اور جہاد، تقویٰ و للہیت ایک اجنبی تصور بن گئے تو امت کا انحطاط وزوال شروع ہوا۔ زیر نظر کتاب میں ابوالحسن ندوی ؒ نے امت کے اسی عروج و زوال کو حکیمانہ اسلوب میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے اسلام سے پہلے کی معاشرت کا تفصیلی تعارف کرواتے ہوئے اس کا محمدی معاشرے سے تقابلی جائزہ پیش کیا ہے۔ علاوہ بریں اس عروج کی خوش کن داستان کے بعد دنیا کی امامت و قیادت مسلمانوں کے ہاتھ سے کیسے جاتی رہی، زمام اقتدار کس طرح مادہ پرست یورپ کے ہاتھ میں آئی۔ اور ایسے میں مسلمانوں کا کیا ذمہ داریاں ہیں۔ ان تمام خیالات کو مولانا احسن انداز میں الفاظ کا زیور پہنایا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرما یا اور آزمائش کے لیے اس دنیا میں بھیج دیا ہے۔ اور اس سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس دنیا میں بن دیکھے اس پر ایمان لائے جسے اصطلاح میں ایمان بالغیب کہا جاتا ہے۔ انسانوں کے ایمان بالغیب اور معرفت الہٰی کی تکمیل کے لیے قرآن مجید میں باربار تذکیر اور یاد ہانی کا طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ نے اپنی کتاب ’الفوز الکبیر‘ میں لکھا ہے کہ قرآن مجید میں یاددہانی کے دو طریقے اختیار کیے گئے ہیں ایک تذکیر بآلاء اللہ اور دوسرا تذکیر بایام اللہ۔ تذکر بآلاء اللہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نعمتوں اور فضل کے ذریعے انسانوں کواپنا شکر ادا کرنے کی یاد دہانی کرواتے اور اللہ کا شکر ادا کرنے میں سب سے پہلا درجہ یہ ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے۔ تذکیر بایام اللہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سابقہ اقوام پر بھیجے ہوئے عذابوں کے قصص بیان کر کے انسانوں کو ایمان بالغیب کی دعوت دیتے ہیں اور نہ ماننے والوں کوپچھلی اقوام کے حشر سے سبق حاصل کرنے کی تلقین فرماتے ہیں۔ معروف ترکی مصنف ہارون یحی کی اس کتاب کا موضوع بھی تذکیر بایام اللہ ہے اور انہو...
قوموں کا عرج و زوال قانون فطرت ہے کسی بھی قوم کا اقتدار اور عروج وزوال دیر پا ضرور ہو سکتا ہے لیکن ہمیشہ نہیں ، قوموں کا عروج وزوال اگر چہ فطری قانون کے مطابق ہوتاہے تاہم ایسا نہیں ہوتاہے کہ اس میں اسباب و عوامل کو کچھ دخل نہ ہو ، کسی بھی قوم کے عروج و زوال میں بہت سے اسباب و عوامل فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں ، قوموں کے بارہا کے عروج وزوال کو دیکھتے ہوئے ان عوامل کو طے کر ناکوئی مشکل کام نہیں ہے ۔اہل علم نے اقوام کے ان عروج وزوال کے اسباب پر متعدد علمی تحقیقات کی ہیں، جن سے عروج وزوال کے اسباب کا بڑی وضاحت کے ساتھ جائزہ ہو جاتا ہے۔ ابن خلدون نے حکومتوں ، شاہی خاندانوں اور قوموں کے عروج و زوال کو پہلی مرتبہ سائنسی انداز میں سمجھنے کی کوشش کی ، اور اس عمل کے پس منظر میں جو قوانین کارفرما ہیں انہیں دریافت کرنے اور ان کے اثرات کو متعین کرنے کی کوشش کی ۔ وہ عروج و زوا کے اس عمل کو انسانی زندگی سے تشبیہ دیتا ہے کہ جس طرح ایک انسان بچپن ، جوانی اور بڑھاپے کے درجات طے کرکے موت سے ہم آغوش ہوجاتا ہے ، اسی طرح سے قومیں بھی ان مرحلوں سے گذر کر زوال پذیر ہوجاتی ہیں ۔ اس ک...