شورش کاشمیری

  • نام : شورش کاشمیری

نام: عبدالکریم۔
تعلیم تربیت:
آغا کاشمیری نے ایک متوسط گھرانے میں جنم لیا اور بمشکل میٹرک تک تعلیم حاصل کی زمانہ ’’زمیندار‘‘ پڑھنے کا معمول تھا۔جسکے نتیجے میں ان کا ادبی ذوق پختہ ہوگیا۔ اور مولانا ظفرعلی خان کے گرویدہوگئے۔صحافت اور ادب میں ان کا رنگ اختیار کیا۔انہوں نے امیر شعریت سیّدعطاءاللہ شاہ بخاری اور مولانا ابوالکلام آزاد سے بھی کسب فیض کیا۔
عملی زندگی تعارف وثناء: آغاز شورش کاشمیری نے اپنی عملی زندگی کا آغاز تحریک مسجد شہیدگنج کے عوامی اجتماعات میں خطابت اور صدارت سے کیااورخورد سالی عمر میں حسین آگاہی چوک ملتان میں مجلس احرار اسلام کے پلیٹ فارم سے انگریز کےخلاف ایک ذبردست تقریر کی جس کے نتیجہ میں انہیں پولیس کے بے پناہ تشدد اورپھر قیدو بند کا سامنا کرنا پڑا۔
آغا شورش کاشمیری نے 1949ء میں ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ کا اجراء کیا اور اسے بام عروج تک پہنچایا۔
چٹان ایک زمانہ میں مقبول عام پرچہ تھا اور لوگ قطار میں کھڑے ہوکراسکو خریدا کرتے تھے۔
حالات حاضرہ پر ایک نظم کتابوں پرتبصرہ مختلف ناموں سے ادبی کالم آغاصاحب خود لکھتے تھے۔ان کے علاوہ بھی کئی مضامین ان کے نام سے نکلتے تھے۔
تحریرو تقریر کے ذریعے غلط کار حکمران ،سیاست دانوں کو ٹوکنا،جعلی علماء اور پیروں کا محاسبہ کرنا قادیانیت کا تعاقب کرنا اور انکی سازشوں کو بے نقاب کرنا ان کادم آخر تک معمول رہا۔اس حق گوئی کے نتیجہ میں انہیں وقتا فوقتا جیل کا سامنا کرنا پڑاصدر ایوب جیسے آمر کو انہوں نے45 دن کی بھوک ہڑتال کرکے ہلا دیا آمر حکومت کو آخرکاران کے سامنے جھکنا پڑا اور انہیں رہا کرنا پڑا۔چٹان کا ڈیکلریشن کئی بار منسوخ کیا گیا لیکن انہوں نے کبھی بھی نفع نقصان کی پرواہ نہیں کی۔
آغاشورش کاشمیری نے عالمی حالات کی تبدیلی میں سامراجی کردار کا بھی خوب تجربہ کیا ہےان کی نظمیں قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔
آغا شورش کاشمیری کویہ شرف بھی حاصل ہےکہ 1965ء کی جنگ کے دوران انہوں نے اعلی معیار کے بیسیوں جہادی ترانے تحریر کیے جوکہ ریڈیوپاکستان سے نشر ہوکر افواج پاکستان کے حوصلے بلند کرتے رہے۔ان جہادی ترانوں کا مجموعہ بعدمیں ’’الجہاد الجہاد،، کےنام سے شائع ہوا۔
آغاشورش کاشمیری صحافت اور سیاست میں بے ضمیر اور خوشمدی ٹولہ سے بہت بیزار رہتے تھے اس گروہ کو وہ طنزا انجمن ستائش باہمی کے نام سے پکارتے تھے شائدیہی وجہ ہے کہ اس انجمن ستائش باہمی کے ارکان نے آغا شورش کاشمیری سے خوفناک انتقام لیا۔ادب و صحافت کی تاریخ کی کتابیں آغا شورش کے تذکرہ سے اس طرح خالی ہیں جس طرح ضمیر سے خالی ہوتے ہیں۔آغاشورش نےقادیانیت کے خلاف محازسنبھالا اور قادیانیوں کی سیاسی سازشوں کاوہ تن تنہا 1935ء1974ءتک قلع قمع کرنے میں مصروف ہے۔کبھی وہ حکمران کومتوجہ کرتےتوکبھی عوام الناس کو تحریروتقریرکے ذریعےبیدارکرتےتھے۔
آغاشورش کاشمیری وہ نوجوان ہےجولفظوں کی روانی جملوں کی ضوفشانی سےصاحب نظروفکرکےدلوں پرحکمرانی کرتا رہا۔شورش بولتا تھاکہ موتی رولتا تھا۔اس کی تحریروتقریرسن کربوڑھے جوان ہوجاتےتھے۔امیرشریعت سیدعطاءاللہ شاہ بخاری جیسےبلندپایہ عالم بھی شورش کی تقریرسن کر بےاختیارکہہ اٹھے کہ شورش کی تقریرسن کریوں محسوس ہوتاہےکہ بوڑھا عطاءاللہ آج جوان ہوگیاہے۔گویابخاری صاحب کوجناب شورش میں اپنی جوانی کاعکس محسوس ہوتا تھا۔
آغاشورش کاشمیری برصغیرکےمنفردخطیب ومقررتھےجواپنی تقریرسےعوام الناس کےدلوں کوجیت لیتےتھےاور انکی روحوں اورقلبوں کودین اسلام کی محبت میں پختہ کرکےقربانی وایثارجیسے قابل قدراصولوں کواپنالینےپرمجبورکررہےتھے۔
آغاشورش کاشمیری ایک بےباک صحافی اورخطیب ہونےکے علاوہ عاشق رسول محب رسول بھی تھے۔آپ کی زندگی کےاس پہلوپرامام صحافت مجیدنظامی رقم طرازہیں۔’’خاتم النبیین کےکروڑوں غلام یہ گواہی دیں گےکہ اپنی ہزارہابشری کمزوری کےباوجودآغاشورش کاشمیری اللہ رب العزت کےحضورسرخروکھڑے ہونگےکیونکہ انہوں نےختم نبوت کاعلم اس وقت بھی سربلندرکھاجب وہ اس میدان میں تنہارہ گئے تھے۔قادیانیوں کے خلاف تحریک میں ان کی خدمات ہمیشہ زندہ وجاوید رہیں گی۔
وفات:
اسلام کامتوالا پاکستان کاشیدائی ،عقیدہ ختم نبوت کا محافظ جود فروشوں اور بے ضمیروں کانقاد25اکتوبر1975ءکواس دارفانی کوچھوڑکر خالق حقیقی سے جاملے۔اناللہ اناالیہ رجعون۔
رہےگا نام اللہ کا۔باقی ہر شےفنا
حوالہ:ویکیپیڈیاو مختلف مضامین انٹرنیٹ آغاشورش ایک عہدآفریں شخصیت۔

کل کتب 5

  • 1 #93

    مصنف : شورش کاشمیری

    مشاہدات : 28824

    تحريک ختم نبوت

    (بدھ 30 جون 2010ء) ناشر : الفیصل ناشران وتاجران کتب، لاہور
    #93 Book صفحات: 256

    یہ عقیدہ کہ سلسلہ نبوت ورسالت سیدنا محمدعربی ﷺ پرختم ہوچکا اور اب آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اسلام کا بنیادی ترین عقیدہ ہے جسے تسلیم کیے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا تاریخ میں ایسی کئی روسیاہیوں کا تذکرہ ملتا ہے جنہوں نے ردائے نبوت پر ہاتھ ڈالنےکی ناپاک جسارت کی۔انہی میں مرزا غلام احمد قادیانی کانام بھی آتا ہے جس نے نبوت کا جھوٹا دعوی کیا لیکن مسلمانان برصغیر نے اس فتنے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جس کے نتیجے میں بالآخرپاکستان میں انہیں آئینی طور پر کافرقرار دے دیاگیا لیکن اس  کےلیے اسلام اور جانثار ختم نبوت نے بےشمار قربانیاں دیں جن کی تفصیل معروف صحافی جناب آغاشورش کاشمیری نے ’’تحرک ختم نبوت‘‘ میں کی ہے جس میں 1891 ء سے لیکر 1974 ء تک اس عظیم تحریک کی تفصیلات کو انتہائی خوبصورت اور مؤثر اسلوب نگارش میں قلمبند کیا گیا ہے اس کتاب کے بعض مندرجات  سے اختلاف کی گنجائش ہے لیکن مجموعی طور پر یہ  کتاب  انتہائی مفید اور لائق مطالعہ ہے ۔
     

  • 2 #3330

    مصنف : شورش کاشمیری

    مشاہدات : 10616

    بوئے گل ، نالہ دل ، دود چراغ محفل

    (پیر 08 فروری 2016ء) ناشر : مطبوعات چٹان لاہور
    #3330 Book صفحات: 538

    آغا شورش کاشمیری﷫ پاکستان کےمشہور و معروف شاعر،صحافی، سیاستدان اوربلند پایہ خطیب تھے۔آغا شورش کاشمیری 14 اگست 1917ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام عبدالکریم تھا، لیکن آغا شورش کاشمیری کے نام سے مشہور ہوئے۔ آغا شورش کاشمیری ایک مجموعہ صفات شخصیت تھے۔ صحافت، شعروادب، خطابت وسیاست ان چاروں شعبوں کے وہ شہسوار تھے۔آپکی سیاسی علمی ادبی تربیت کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ گھر میں ’’زمیندار‘‘ اخبار آتا اور مسجد شہید گنج کی تحریک نصف نہار پر تھی عبدالکریم اسکول سے فارغ ہوئے تو تحریک شہید گنج کا رخ کیا اور مولانا ظفر علی خان سے قربت میسر آ گئی تو مولانا ظفر علی خان کی سیاست، صحافت، خطابت آغا شورش کے مزاج میں سرایت کرتی چلی گئی ۔ اب شورش بھی برصغیر کا منفرد خطیب مانا جانے لگے۔ سارا ہندوستان انکے نام سے شناسا ہوا۔ آغا صاحب کا ایک سیاسی قد کاٹھ بن گیا جس دوران مسلم لیگ علیحدہ وطن کیلئے کوشاں تھی اس وقت آغا شورش کاشمیری مجلس احرار کے چنیدہ رہنماؤں میں شامل ہو کر مجلس کے ایک روزنامہ (آزاد) کے ایڈیٹر بن گئے اور قیام پاکستان کے بعد آغا شورش کاشمیری...

  • 3 #3389

    مصنف : شورش کاشمیری

    مشاہدات : 8701

    پس دیوار زنداں

    (ہفتہ 27 فروری 2016ء) ناشر : مطبوعات چٹان لاہور
    #3389 Book صفحات: 462

    آغا شورش کاشمیری پاکستان کےمشہور و معروف شاعر،صحافی، سیاستدان اوربلند پایہ خطیب تھے۔آغا شورش کاشمیری 14 اگست 1917ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام عبدالکریم تھا، لیکن آغا شورش کاشمیری کے نام سے مشہور ہوئے۔ آغا شورش کاشمیری ایک مجموعہ صفات شخصیت تھے۔ صحافت، شعروادب، خطابت وسیاست ان چاروں شعبوں کے وہ شہسوار تھے۔ آغا شورش نے ایک متوسط گھرانہ میں جنم لیا اور بمشکل میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ آپکی سیاسی علمی ادبی تربیت کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ گھر میں ’’زمیندار‘‘ اخبار آتا اور مسجد شہید گنج کی تحریک نصف نہار پر تھی عبدالکریم اسکول سے فارغ ہوئے تو تحریک شہید گنج کا رخ کیا اور مولانا ظفر علی خان سے قربت میسر آ گئی۔ عبدالکریم پہلے ہی جوش و جذبہ کا سیل رواں تھے، بغاوت و آزادی کا ہدی خواں تھے، شمشیر برہاں تھے، آپ تخلص الفت کرتے اور زمانے میں شورش برپا کر رکھی تھی لہٰذا حسب مزاج الفت کو شورش کا نام دینا مناسب جانا بس مولانا ظفر علی خان تھے۔ تحریک شہید گنج تھی اور شورش کا جذبہ تھا کچھ کر گزرنے کا جنوں تھا۔ مولانا ظفر علی خان کی سیاست، صحافت، خ...

  • 4 #5540

    مصنف : شورش کاشمیری

    مشاہدات : 6064

    فیضان اقبال رحمۃ اللہ علیہ

    (جمعرات 26 جولائی 2018ء) ناشر : نظریہ پاکستان ٹرسٹ
    #5540 Book صفحات: 210

    علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف،قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ ،بحیثیت سیاستدان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریہ پاکستان کی تشکیل ہے جو انہوں نے 1930ء میں الٰہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہےاور آپ کو شاعر مشرق کہا جاتا ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اہل مشرق کے جذبات و احساسات کی جس طرح ترجمانی کا حق اقبال مرحوم نے ادا کیا ہے اس طرح کسی دوسرے نے نہیں کیا ہے ۔ علامہ اقبال 9 نومبر 1877ء (بمطابق 3 ذیقعد 1294ھ) کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ ماں باپ نے نام محمد اقبال رکھا۔مؤرخین کے مابین علامہ کی تاریخ ولادت میں اختلاف لیکن حکومت پاکستان سرکاری طور پر 9 نومبر 1877ء کو ہ...

  • 5 #6039

    مصنف : شورش کاشمیری

    مشاہدات : 11757

    سید عطاء اللہ شاہ بخاری سوانح و افکار

    (منگل 24 مارچ 2020ء) ناشر : مطبوعات چٹان لاہور
    #6039 Book صفحات: 288

    سید عطا اللہ شاہ بخاری ﷫ دینی اور سیاسی رہنما مجلس احرار اسلام کے بانی تھے ۔1891ء کو پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ آبائی وطن موضع ناگڑیاں ضلع گجرات پنجاب، پاکستان) تھا۔سید صاحب زمانہ طالب علمی ہی میں سیاسی تحریکوں میں حصہ لینے لگے تھے۔ لیکن آپ کی سیاسی زندگی کی ابتدا 1918ء میں کانگرس اور مسلم لیگ کے ایک مشترکہ جلسے سے ہوئی۔ جو تحریک خلافت کی حمایت میں امرتسر میں منعقد ہوا تھا۔ سیاسی زندگی بھر پور سفروں میں گزاری اور ہندوستان کے تمام علاقوں کے دورے کیے۔  قدرت نے آپ کو خطابت کا بے پناہ ملکہ ودیعت کر رکھا تھا ۔اپنے زمانے کے معروف ترین مقرر تھے اور لوگ ان کی تقریریں سننے کے لیے دور دور سے آتے تھے۔ اردو، فارسی کے ہزاروں اشعار یاد تھے۔ خود بھی شاعر تھے ۔ ان کی زیادہ تر شاعری فارسی میں تھی۔  سیاست میں ’’پنڈت کرپا رام برہمچاری، امیر شریعت اور ڈنڈے والا پیر ‘‘ کے نام سے معروف تھے۔ آپ  نےمجموعی طور پر 18 سال جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں...

کل کتب 0

کل کتب 0

ایڈ وانس سرچ

اعدادو شمار

  • آج کے قارئین 18612
  • اس ہفتے کے قارئین 214780
  • اس ماہ کے قارئین 838488
  • کل قارئین112445816
  • کل کتب8872

موضوعاتی فہرست